بدھ, جنوری 8, 2025
اشتہار

مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب میں منیر نیازی وہ خوش قسمت شاعر تھے جنھیں اُن کی زندگی میں بڑا شاعر تسلیم کیا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔

ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین منیر نیازی کے فن و کمال کے معترف رہے اور منیر نیازی بھی اُن کی تحریروں کو سراہتے تھے۔ انتظار حسین نے کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون لکھا تھا جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔ منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔

- Advertisement -

مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سو اپنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے، سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں، زیادہ بڑے اور زیادہ پُر ہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہدِ قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہدِ قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔

جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔ وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا، اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں، عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔

دبی ہوئی ہے زیرِ زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
٭٭٭

کرے گا تو بیمار مجھے یا
بنے گا نامعلوم کا ڈر
رہے گا دائم گہری تہ میں
جیسے اندھیرے میں کوئی در

پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں اس کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذ و نادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں؟

نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وسعت بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو

منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے، قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔

ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔

(انتظار حسین کی یہ تحریر امجد طفیل کی کتاب بعنوان منیر نیازی: شخصیت و فن میں شامل ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں