تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

معروف نعت خواں منیبہ شیخ

18 مئی 1944ء کو بھارت کے صوبہ مہاراشٹر کے شہر پونا کے ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں جنم لینے والی منیبۃُ الکبریٰ شیخ کے والدین نے بچپن میں اسے نعتیں پڑھتے دیکھ کر کب سوچا ہوگا کہ ان کی بیٹی بڑی ہو کر پاکستان کی مشہور نعت خواں بنے گی۔

منیبہ شیخ کے نانا اسمٰعیل عزیزی جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھے اور اس گھرانے کے افراد کا کسی نہ کسی حوالے سے مسلم لیگ سے بھی تعلق تھا۔ آپ کی والدہ صغریٰ بیگم کارپوریشن کی چیئر پرسن تھیں اور معلمہ بھی۔ آپ کے بھائی محمد اسحٰق نے”جل گاؤں“ میں لڑکیو ں کی تعلیم و تربیت کے لیے محمدی ہائی اسکول اور کالج قائم کیے۔ مذہبی ماحول میں پروان چڑھنے والی منیبہ شیخ نے عربی، فارسی، فقہ، تدوین، تفسیرِ قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ منیبہ شیخ کے ماموں بے اولاد تھے اور جب پاکستان ہجرت کر کے آئے تو اپنی بھانجی منیبہ شیخ کو بھی ہمراہ لے آئے۔ آپ سپریم کورٹ سے وابستہ اور اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ پاکستان آنے کے بعد منیبہ شیخ نے پی ای سی ایچ ایس کالج سے انٹر کیا۔جامعہ کراچی سے اردو میں بی اے آنرزاور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کی سند حاصل کیں۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ کراچی سے انڈین اسٹیڈیز اور فارسی میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں اور تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ 1974ء میں سرسید کالج میں اُردو کی لیکچرار کی حیثیت سے یہ سفر شروع ہوا اور پھر سول پبلک سروس کا امتحان پاس کر کے 1979ء میں گورنمنٹ کالج فار ویمن شاہراہِ لیاقت سے منسلک ہو گئیں۔ 2004ء میں بحیثیت پرفیسر ریٹائرڈ ہوئیں۔

آپ نے ریڈیو سے ہندی میں خبریں پڑھیں۔ پانچ برس تک ریڈیو پروگرام پلیٹ فارم کی میزبانی کی۔ محض ادب کا عمدہ ذوق ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ آپ کی تخلیقات مختلف جرائد میں شائع ہوئیں۔ بین الاقوامی سیرت کمیٹی کی جانب سے عورت پر سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کے عنوان سے آپ نے مضامین ترتیب دیے۔ آپ اُردو ادب میں ڈاکٹریٹ کر رہی تھیں لیکن اپنی مصروفیت کی بنا پر اپنا مقالہ مکمل نہ کر سکیں۔

خوش الحان منیبہ شیخ کے بچپن میں اُن کے گھر میں جمعہ کی نماز کے بعد نعت خوانی کا اہتمام ہوتا تو منیبہ نہایت ذوق و شوق سے نعت پڑھتیں۔ قدرتی طور پر آپ کی آواز میں بہت لوچ اور شیرینی تھی۔ مشق اور باقاعدہ ریاض کرنے سے آپ کی خوش الحانی میں مزید نکھار آگیا۔ منیبہ شیخ نے ماموں سے ریڈیو پر نعت پڑھنے کی اجازت چاہی تو اُنہوں نے جواباً خاموشی اختیار کر لی۔ ماموں کی اس خاموشی کو اُن کی رضا مندی سمجھتے ہوئے آپ نے ستّر کی دہائی میں ریڈیو پاکستان سے جان محمد قدسی کی نعت مرحبا سیدی مکی مدنی العربی سے نعت خوانی کا سفر آغاز کیا۔ فارسی نعت کا ایسا شستہ لب و لہجہ اور دلنشیں لحن! آپ کی پہلی ہی نعت نے سامعین کی سماعتوں اور دلوں کو مسخر کر لیا اور منیبہ شیخ نے ملک گیر شہرت حاصل کر لی۔ منیبہ کی نعت خوانی کا سفر کچھ اور آگے بڑھا اور آپ نے پاکستان ٹیلیویژن سے نعت خوانی کا آغاز اس اعزاز کے ساتھ کیا کہ آپ کو پاکستان ٹیلیویژن کی پہلی باقاعدہ نعت خواں کا امتیاز حاصل ہے۔ کیونکہ آپ سے قبل پی ٹی وی پر فلمی گائیک ہی نعت خوانی کیا کرتے تھے۔ 1977ء میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشنِ ولادت کے موقع پر منیبہ شیخ نے پاکستان ٹیلیویژن کے لیے علامہ اقبال کا نعتیہ کلام ”لوح بھی تُو قلم بھی تُو“ پڑھ کر بے پناہ داد وصول کی۔

عربی و فارسی زبان پر عبور کے سبب تلفظ کی درست ادائیگی کے ساتھ نعت پڑھنا منیبہ شیخ کا طرّۂ امتیاز رہا۔ بقول پروفیسر انوار احمد زئی ”منیبہ شیخ علمی اعتبار سے فارسی پر دسترس رکھتی تھیں یہی وجہ ہے کہ جس صداقت، صحت، تاثیر اور عمدگی کے ساتھ وہ ادا کرتی تھیں مجھے نہیں لگتا کہ فارسی کی کوئی نعت خواں خاتون اُن کے مقابلے میں اُترتی تھیں اس وقت۔“

منیبہ شیخ نے ترجیحاً اساتذہ اور قدیم شعراء بالخصوص حضرت نظامُ الدّین اولیاء، جامی، قدسی، سعدی، خسرو اور علامہ اقبال کے نعتیہ کلام کا انتخاب کیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے منیبہ شیخ کی نعت خوانی کے اسلوب کے لیے بجا فرمایا تھا کہ
”اُن کے اندر اُتری ہوئی تھیں یہ نعتیں۔ نعت پڑھتے ہوئے اُن کا پورا چہرہ لفظوں کی ادائیگی کا استعارہ بن جاتا۔“

منیبہ شیخ کی پڑھی ہوئی نعتیں دل کو گدزا بخشتی تھیں۔ نعت خوانی میں آپ کا اپنا لہجہ، طرز اور دھنیں آپ کو دیگر نعت خوانوں سے ممتاز بناتی تھیں۔ خاص طور پر اپنے شاگردوں کی تربیت میں نعتیہ کلام کا انتخاب، طرز، شین قاف کی درستی، نعت خوانی کا احترام اور نعت کی دل سے ادائیگی کو بطورِ خاص اہمیت دی۔ یوں تو نعت خوانی ہی منیبہ شیخ کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے لیکن آپ کو کئی سرکاری و غیر سرکاری اعزازات بھی دیے گئے جن میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی بھی شامل ہے۔

منیبہ شیخ زندگی کا سفر 73 برس کی مسافت کے بعد بالآخر 14 مئی 2017ء کو تمام ہوا۔

(تحریر: شائستہ زریں)

Comments

- Advertisement -