تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ایک شب نورد کا قصّہ جسے لوگ طعنے دینے لگے تھے!

منیر فاطمی کی موت پر مجھے طفیل ابنِ گل کی قل خوانی یاد آگئی۔

طفیل کی موت پر میں ملتان میں نہیں تھا۔ اگلے روز ملتان پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کا جنازہ ہو چکا اور تدفین بھی ملتان سے باہر ہوئی ہے۔ ایک ہفتے بعد دوستوں نے قل خوانی کا اہتمام کیا۔ حسن آباد کی ایک مسجد میں قریبی دوستوں سمیت 15 افراد قل خوانی میں شریک تھے اور ان 15 افراد میں منیر فاطمی بھی شامل تھے۔

دعا کے بعد سب نے ایک دوسرے کو پُرسہ دیا۔ منیر فاطمی خاموش بیٹھے رہے۔ نم آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھا اور پھر سر کو جھکا لیا۔ اس روز ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ چند روز بعد ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو منیر فاطمی نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ شہر کے لوگوں نے طفیل کو اس کی موت کے ایک ہفتے بعد ہی بھلا دیا ہے اور میں انہیں بتا رہا تھا کہ یہ صرف طفیل کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ شہر کے ادیبوں کا عمومی رویہ اب ایسا ہی ہو گیا ہے۔

تین برس قبل اسلم یوسفی کی قل خوانی کے موقع پر بھی ایسی ہی صورت حال سامنے آئی تھی۔ محلہ کھٹکانہ کی جامع مسجد میں بہت سے لوگ اسلم یوسفی کے ایصالِ ثواب کے لیے جمع ہوئے مگر ان میں ادیب شاعر دو تین ہی تھے۔ لوگ اب موت پر بھی پبلک ریلیشننگ کو مد نظر رکھتے ہیں۔ صرف ایسے جنازوں اور قل خوانیوں میں شریک ہوتے ہیں جہاں اخباری فوٹو گرافرز کی آمد متوقع ہوتی ہے۔ کسی افسر کا عزیز مر جائے تو پُرسہ دینے کے لیے دھکم پیل ہوتی ہے اور اگر کسی ماتحت کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے تو کندھا دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ ہم جب منیر فاطمی کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے تو ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ چار پانچ ماہ بعد ہمیں ان کا نوحہ بھی لکھنا پڑے گا۔

منیر فاطمی سے میرا قلمی تعارف 1977-78ء میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب میں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ منیر فاطمی اس دور میں ہر ہفتے ”امروز“ میں ملتان کی ادبی ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اس ہفتہ وار کالم میں جہاں ملتان کی ادبی تقریبات کا تفصیلی تذکرہ ہوتا تھا وہیں مختلف ادیبوں اور شاعروں کے حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی پیرا گراف موجود ہوتا تھا۔ منیر فاطمی کے اسی کالم کی معرفت بہت سے ادیبوں اور شاعروں سے میرا غائبانہ تعارف ہوا۔ 1981ء میں ان کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی۔ شاکر میرے ساتھ تھا۔ شاید ہم انہیں کسی مشاعرے کا دعوت نامہ دینے گئے تھے۔ منیر فاطمی بہت جلد ہمارے ساتھ گھل مل گئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔ اس کے بعد ہم جب بھی کچہری جاتے منیر فاطمی سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔

منیر فاطمی نئے لکھنے والوں حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مشاعرے میں نوجوانوں کی غزلوں پر داد دینے والوں میں ان کی آواز نمایاں ہوتی تھی۔ وہ ضلع کچہری میں اوتھ کمشنر کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کے چیمبر میں عموماً کوئی نہ کوئی شاعر یا ادیب موجود ہوتا تھا۔ سول لائنز کالج، کچہری کے ساتھ ہی تھا اور ہم کئی بار کالج سے فارغ ہونے کے بعد یا اردو کا پیریڈ چھوڑ کر چائے پینے ان کے پاس چلے جاتے تھے۔

1981ء میں شاکر کے ساتھ مل کر ہم نے ”مجلسِ فکرِ نو “قائم کی اور اس کے زیرِ اہتمام متعدد مشاعروں اور تقریبات کا اہتمام کیا۔ اسی تنظیم کے زیرِ اہتمام مسلم ہائی اسکول میں ہاشم خان صاحب کے تعاون سے بیت بازی کا ایک مقابلہ کرایا گیا۔ بیت بازی کے اس مقابلے کی صدارت منیر فاطمی نے کی۔ اس تقریب میں ملتان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ وہ تمام نوجوان جو اس دور میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کر رہے تھے اور بعد ازاں ان میں سے بہت سوں نے اپنی شناخت بنائی اور نام پیدا کیا۔ منیر فاطمی کے ساتھ اس تقریب کے شرکاء کا گروپ فوٹو بہت یادگار ہے۔ اس میں اطہر ناسک، سلیم ناز، اسلام تبسم، اسلم ندیم، عامر شہزاد، مسرور صد یقی، شاہین کہروڑوی، اور بہت سے دوسرے موجود ہیں۔ منیر فاطمی نے اس تقریب میں ہلکے پھلکے انداز میں بہت دل چسپ گفتگو کی۔ ماضی کو یاد کیا اور ہمیں بتایا کہ ہم بھی ایسی ہی تقریبات منعقد کیا کرتے تھے۔ پھر ایک ”شامِ غزل “ ہوئی جس میں شعراء کو حروفِ تہجی کی ترتیب سے پڑھانے کا اہتمام کیا گیا۔ اسلم یوسفی اور اصغر علی شاہ صاحب نے مشاعرے کے آغاز میں پڑھا اور منیر فاطمی کی باری آخر میں آئی۔ اس مشاعرے میں ہم سے بعض ایسے شعراء ناراض ہو گئے جن کے نام ابتدائی حرو ف سے شروع ہوتے تھے تاہم منیر فاطمی اس تجربے سے بہت محظوظ ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ”فاطمی صا حب اگر آپ کا نام الف سے شروع ہوتا تو کیا پھر بھی آپ اسی خوش دلی کے ساتھ مشاعرے میں شریک ہوتے؟‘‘ کہنے لگے ”آپ کسی عام مشاعرے میں بھی مجھے سب سے پہلے پڑھا سکتے ہیں۔ میرا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اچھا شعر جس مقام پر بھی پڑھا جائے سامعین کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔“

منیر فاطمی خوب صورت شاعر اور نثر نگار تھے۔ ان کا شمار ہمارے ان سینئرز میں ہوتا تھا جنہوں نے 50ء کی دہائی میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ابتداء غزل سے کی اور جلد ہی اپنی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا۔ غزل میں ان کا ایک منفرد انداز تھا۔ اگرچہ انہوں نے آزاد اور پابند نظمیں بھی کہیں لیکن مجھے ہمیشہ ان کی غزل نے متاثر کیا۔ بہت اچھوتا اور سادہ انداز تھا۔ دل میں اتر جانے والے شعر کہا کرتے تھے۔

اپنا آپ چھپا کر ہنسنا اوروں پر
ہنسنے والو اس کو رونا کہتے ہیں

مری بیاض کے سارے ورق رہے سادہ
وہ داستاں ہی نہ تھی جو کتاب میں لکھتا

ایسے ہی بہت سے اشعار ان کے شعری مجموعوں میں جا بجا ملتے ہیں۔ منیر فاطمی کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے، بہت سی تقریبات میں شرکت کی، بہت سی محفلوں میں ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ رات کو دفتر سے واپسی پر وہ کبھی کبھار ہمیں سرِ راہ یا کسی ہوٹل پر مل جایا کرتے تھے۔ رات بھر سڑکوں پر گھومنا ان کا ”پسندیدہ مشغلہ“ تھا جو انہوں نے اپنی موت سے ایک رات پہلے تک بھی جاری رکھا۔ دوستوں نے ان سے ملاقات کرنا ہوتی تو رات کو دولت گیٹ، حسین آگاہی یا اندرونِ شہر کے کسی ہوٹل میں انہیں تلاش کر لیا کرتے تھے۔ 20 مارچ کی شب بھی وہ ڈیڑھ دو بجے تک دوستوں کے ساتھ بیٹھے رہے اور اگلی صبح خبر ملی کہ منیر فاطمی کا انتقال ہوگیا ہے۔ عجیب شخص تھا مرتے دم تک اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔

منیر فاطمی نے شادی بہت دیر سے کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک ان کا شمار شہر کے سینئر کنواروں میں ہوتا تھا۔ پھر اچانک 1990ء میں خبر ملی کہ انہوں نے شادی کر لی ہے۔ ایک روز ملاقات ہوئی تو میں نے خبر کی تصدیق چاہی۔ کہنے لگے ”ہاں بھئی کر ہی لی شادی۔ لوگ طعنے دینے لگے تھے۔“

”کس قسم کے طعنے ملتے تھے؟“

”بھئی صرف ایک مثال دیتا ہوں۔“ منیر فاطمی نے ہنستے ہوئے کہا، ”اقبال ساغر صدیقی جب بھی ملتے تھے کہتے تھے۔

سب نے کر لی ہیں شادیاں اپنی
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اور پھر ایک دن ہمیں بھی شرم آگئی اور ہم نے شادی کر لی۔“

منیر فاطمی بہت زندہ دل انسان تھے، جس محفل میں جاتے سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے وہ احساسِ محرومی کا شکار تھے۔ انہوں نے خود کبھی اس بات کا اظہار تو نہ کیا تھا لیکن گفتگو سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اس بات کا شدید گلہ ہے کہ انہیں ادب میں وہ مقام نہیں دیا جارہا جس کے وہ حق دار ہیں۔ اور یہ بات بھی درست تھی۔ منیر فاطمی کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود ان سے زیادہ پذیرائی اُن لوگوں کی ہوتی تھی جنہیں ایک مصرعہ بھی کہنا نہیں آتا۔

منیر فاطمی بھلا ترقی کی منازل کیسے طے کرسکتے تھے، وہ اوّل و آخر شاعر تھے اور شاعر انا پرست ہوتا ہے۔ وہ دن بھر ضلع کچہری میں وکالت کرتے مگر ہم نے انہیں کبھی اپنے بعض ہم عصروں کی طرح کسی کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اے ڈی سی جی کی کاسہ لیسی کرتے نہیں دیکھا۔ اور ہمیں یہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی کسی تقریب میں کسی ”ادب نواز“ بیورو کریٹ کی شان میں کوئی قصیدہ نما مضمون پڑھا ہو۔ انہیں زمانہ سازی نہیں آتی تھی۔ پھر بھلا وہ شہرت کی منازل کیسے طے کر سکتے تھے کہ فی زمانہ شہرت کی منازل طے کرنے سے پہلے منافقت اور خوشامد کی بھی بہت سی منازل طے کرنا پڑتی ہیں۔

وہ ایک درویش انسان تھے اور درویش یونہی چلتے پھرتے اچانک منہ موڑ جاتے ہیں۔

(از قلم: رضی الدّین رضی)

Comments

- Advertisement -