بہت پیارے شوہر البرٹ اور بے حد عزیز ملازم جان براؤن کے مرنے کے بعد جب ملکہ وکٹوریہ کی زندگی پر ہو کا عالم طاری تھا، ایسے میں آگرے سے ایک چوبیس برس کا خوب رو نوجوان آیا اور خدمت کرتے کرتے ملکہ کے دل میں البرٹ اور براؤن جیسی چاہت جگا دی۔
یہ آگرہ جیل میں ایک دیسی ڈاکٹر کا بیٹا عبدالکریم تھا، جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پڑھتا ہوا اور قرآن حفظ کرتا ہوا ہندوستان سے آیا اور ملکہ نے اس سے کہا کہ ہندوستانی بول کر دکھاؤ۔ وہی لفظ ملکہ نے دُہرائے اور خود اپنی آواز سن کر اتنی خوش ہوئیں کہ اگلے ہی لمحے عبدالکریم، منشی عبدالکریم ہوگئے۔ ہر چند کہ ملکہ کی بینائی ان کا ساتھ چھوڑ رہی تھی لیکن جب منشی نے ہاتھ پکڑ کر ان سے اردو لکھوائی تو جھروکوں سے جھانکنے والوں نے ایسے افسانے تراشے کہ لگتا تھا شاہی محل میں کوئی انسان نہیں بھوت پریت چلا آیا ہے۔
ادھر ملکہ نے اپنی آنکھوں کے جھرکوں سے ہندوستان کے ایسے سہانے خواب دیکھنے شروع کیے کہ جن میں کہیں پگڑیاں باندھے توانا مرد تھے تو کہیں ساڑھیوں میں لپٹی لپٹائی شرمیلی عورتیں۔ کہیں مسجدوں سے بلند ہوتی اذان تھی اورکہیں چنگھاڑتے ہاتھیوں کا شور۔ حالت یہ ہوئی کہ ملکہ نے اپنے درو دیوار ہندوستان سے آئی ہوئی سوغاتوں اور اپنا تن بدن مہاراجوں کے بھیجے ہوئے زیورات سے سجالیا۔
اس دوران آگرے کا وہ نوجوان برطانیہ کا جینٹل مین بن گیا اور محل اور دربار کی اونچی نشستوں پر بیٹھنے اور شاہی سواریوں میں سفر کرتے کرتے وہ تمام لوگوں کے آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا جن کی آنکھوں کی رنگت اس کی آنکھوں کی رنگت سے جدا تھی۔
وہ تو تین تین دن انتظار کرتے تھے اور ملکہ سے ملاقات کی سعادت نصیب نہیں ہوتی تھی اور یہ کہ گھنٹوں ملکہ کے خلوت خانے میں راز و نیاز کیا کرتا تھا اور کبھی اپنا منصب بڑھانے کی فرمائشیں کیا کرتا تھا اور کبھی ترچھی نظروں سے دیکھنے والوں کی شکایتوں کے طومار باندھا کرتا تھا اور اگلی ہی صبح ان کے نام ملکہ کا خط آتا تھا کہ خبردار۔
البرٹ اب تک ملکہ کے دل و دماغ میں سمایا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں پڑے ہوئے لاکٹ میں اب بھی البرٹ کی چھوٹی سی تصویر تھی۔ ملکہ جب کوئی خوش نما منظر دیکھتی اس تصویر کو بلند کر کے اسے بھی دکھاتی۔ ملکہ کی چاہت کے انداز سب سے جدا تھے اسی لئے کوئی نہ انہیں سمجھ پایا نہ ان کی محبت کو اور ایک مرحلے پر ملکہ کو پاگل دئیے جانے کے منصوبے باندھے جانے لگے۔
اپنے چہیتے منشی کی خاطر ملکہ نہ جانے کس کس سے لڑی، کس کس کا منہ نوچا، کتنی ہی بار آٹھ آٹھ آنسو روئی اور کتنی ہی بار اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھا کہ بخار اترا کہ نہیں۔ محل کی زندگی سپاٹ ہو چلی تھی۔ بس کبھی کبھار ملازمائیں گاتیں اور ملکہ بیٹھی مسکراتیں پھر سو انگ رچائے جانے لگے۔ اسٹیج سجنے لگے اور سارا شاہی خاندان اور تمام ملازم اداکاری کرنے لگے، جہاں کہیں رنگ دار اور داڑھی والے اداکاروں کی ضرورت ہوتی۔ ہندوستانی ملازم یہ فرض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے۔ منشی عبدالکریم بھی سوانگ رچاتے اور ملکہ دل ہی دل میں داد دیا کرتیں۔ جس کو بھی موقع ملتا وہ ملکہ کے کان میں یہ بات ضرور پھونکتا کہ منشی اسٹیج ہی کا نہیں سچ مچ کا بہروپیا ہے۔ آپ کو خبر نہیں کہ آپ نے آستین میں کیا سانپ پال رکھا ہے۔کچھ تو ملکہ کی سماعت میں ثقل آ چلا تھا۔ کچھ انہوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دینے کاگر سیکھ لیا تھا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
منشی پر الزام لگا کہ وہ ہندوستان کے شورش پسندوں سے جا ملا ہے وہ مسلم لیگ بنا رہا ہے، اس کے دوست تاج برطانیہ کے راز کابل کے دربار کو بھیج رہے ہیں۔ وہ سوزاک اور جریان جیسے مرض میں میں مبتلا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ 1897ء میں ملکہ نے اپنے مشیروں کی بات پر دھیان دینا شروع کیا۔ مؤرخوں کو خبر بھی نہیں کہ اس سن میں ملکہ منشی کو لکھ رہی تھیں کہ میں نے اپنے وصیت نامے میں تمہاری فلاح کا بڑا خیال رکھا ہے کس کو پتا تھا کہ ملکہ اتنی عمر پائیں گی۔ ولی عہد شہزادے خود بوڑھے ہوئے جا رہے تھے اور ملکہ تھیں کہ جیے جارہی تھیں۔ مئی1897ء میں ان کی عمر کی 78 ویں سال گرہ ہوئی تو بولیں کہ میں کافی جی لی لیکن دعا کرتی ہوں کہ اپنے ملک اور اپنے پیاروں کی خاطر مجھے تھوڑی سی مہلت اور مل جائے۔
وہ خوب ملی۔ ان کے ذاتی طبیب اور منشی عبدالکریم کے ذاتی دشمن ڈاکٹر ریڈ کے سپرد یہ کام تھا کہ ملکہ کی سانس اور نبض پر نگاہ رکھیں۔ انہیں اور ساڑھے تین سال اور انتظار کرنا پڑا تب کہیں 17 جنوری 1901ء کی صبح انہوں نے دیکھا کہ ملکہ کے چہرے پر فالج کا اثر ہے۔ ولی عہد شہزادہ اس انتظار میں ساٹھ برس کا ہوگیا تھا کہ ملکہ کی آنکھ بند ہو تو اس کے چاہنے والوں کے مجسمے پھوڑے اور کاغذ نذر آتش کرے۔ ملکہ پر غشی کا عالم طاری، صاف ظاہر تھا کہ یہ وقت رخصت ہے لیکن یہ بھی ظاہر تھا کہ وہ ابھی جانے کو تیار نہیں۔ پہلی بار کسی نے ان کے جذبات کا خیال کیا اور منشی عبدالکریم ان کے کمرے میں لائے گئے۔ وہ آنکھیں موندے لیٹی تھیں اور زندگی کے ٹمٹماتے دئیے سے لڑے جا رہی تھیں۔ منشی نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور آنسوؤں کے سیلاب کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ ہو نہ ہو وہ زیرِ لب کچھ ضرور پڑھ رہے ہوں گے۔
(رضا علی عابدی کی کتاب ”ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم“ سے انتخاب)