لاہور : سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر بات ہوئی ، لاپتہ افراد کامعاملہ اٹھایا گیا، ہمارے پاس موقع ہے اپنی پالیسی بنائیں اورواشنگٹن کی طرف نہ دیکھیں۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے سربراہ مشاہد حسین سید نے اےآر وائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں عسکری قیادت نے اچھی بریفنگ دی، اس وقت ہماری فوجی کمان بڑے کھلے ذہن کی ہے اورکھل کربات ہوئی۔
سربراہ سینیٹ دفاعی کمیٹی کا کہنا تھا کہ محسن داوڑ نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی مخالفت کی، کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا لیکن کہا امن کو موقع دینا چاہیے۔
مشاہد حسین نے کہا کہ بلاول میں شعور ہے، انہوں نے والدہ کی شہادت سے متعلق بھی بات کی، تحفظات کے باوجود بلاول نےمذاکرات کی کوالیفائیڈ سپورٹ کیا ، میں نےاجلاس میں کہا پالیسی تبدیل ہونے سے مسائل پیدا ہوتےہیں۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے اور چوہدری شجاعت نےاکبربگٹی سےکامیاب مذاکرات کیے، اسٹیبلشمنٹ شامل تھی لیکن پھراور لائن اگئی اورپالیسی بدل گئی ، وزیراعظم یا آرمی چیف بدلنے سے پالیسی بدل جاتی ہے کہا گیا اس مرتبہ پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، شاید نئی غلطیاں ہوں۔
سربراہ سینیٹ دفاعی کمیٹی کا کہنا تھا کہ میں نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں لاپتہ افراد کامعاملہ اٹھایا، میں نےکہا اکیسیوں صدی میں بھی لاپتہ افراد کا ہونا شرمناک ہے ،آرمی چیف نے اجلاس میں کہا لاپتہ افراد پر قانون سازی کریں اور جاسوسی ، دہشت گردی کیخلاف ایجنسیز کے کردار پر قانون بنائیں۔
مشاہد حسین نے کہا کہ اجلاس میں کہا گیا ان 2 الزامات والے کو اٹھائیں مگر 48 گھنٹے میں عدالت میں پیش کریں، اس بات پر کسی کو نہ اٹھایا جائے کہ فلاں نے یہ بات کیوں کردی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیراعظم کوکہا آرمی چیف کی طرف سے بڑی اچھی تجویزآئی ہے، ہم دہرے معیار نہیں رکھ سکتے، اس تجویز پرعمل کریں۔
سربراہ سینیٹ دفاعی کمیٹی نے بتایا کہ لوگوں نے تنقید اور مخالفت بھی کی لیکن اجلاس مثبت رہا، ہم پھنسے ہوئے نہیں بلکہ ہمارے پاس تو ریجنل اسٹرٹیجک اسپیس ہے، خوف سے ہم باہر نکلیں کیونکہ خوف کمزوری کی نشانی ہے۔
امریکا کے حوالے سے مشاہد حسین نے کہا کہ امریکا سپرپاوربن کرآپ کےسر پر بیٹھا تھا اور جنگ ہارکر پسپا ہوکرگیا، ہمارے پاس موقع ہے اپنی پالیسی بنائیں اورواشنگٹن کی طرف نہ دیکھیں، ان کو ہماری زیادہ ضرورت ہے مگر پہلے اپنے دماغ سے خوف نکالیں، جب آپ خود ڈر جاتے ہیں تووہ پھر آپ کو زیادہ ڈراتےہیں۔
آئی ایم ایف سے متعلق سربراہ سینیٹ دفاعی کمیٹی کا کہنا تھا کہ 22 بار آئی ایم ایف کے پاس گئے مگر متبادل کا کیوں نہیں سوچتے ، یہ روایتی سوچ ہے جا کر بھیک مانگیں اورایک فون کال پرعملدرآمد کریں، کوئی اقتصادی مجبوری نہیں،یہ ہماری سوچ اورخوف کی عکاس ہے۔
افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ 10سال سے امریکا کو کہہ رہے تھے مذاکرات ہی افغانستان کا حل ہے، جنرل ریٹائرڈ اشفاق کیانی 14 صفحات کا پیپر لیکر وائٹ ہاؤس گئے، جنرل کیانی نے اوباما کو بتایا آپ کی پالیسی ناکام ہے اور یہ جنگ نہیں جیت سکتے، اوباما نے وعدہ کیا مگراس کی اسٹیبلشمنٹ کے آگے کھڑا ہونے کی جرات نہ تھی، اوباما ڈرگیا کیونکہ ان کی فوج چاہتی تھی کہ جنگ جاری رہے۔
مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 100ملین ڈالرزروز کا خرچہ تھا سوا2کھرب ڈالرز امریکا نے افغانستان میں ضائع کیے، ساڑھے 3 لاکھ افغان فوج گھوسٹ تھی اورنکلی صرف 50ہزار، گھوسٹ فوجیوں کا مال افغانی ،امریکی جرنیل اورٹھیکیدار کھا رہے تھے، اتنی بڑی کرپشن پر امریکا میں ایک بھی انکوائری نہیں ہوئی۔
سربراہ سینیٹ دفاعی کمیٹی نے کہا کہ ہماری فوج اورقوم نے بہت قربانیاں دیں، امریکا اورمغرب فیل ہوگیا صرف پاک آرمی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی، یہ جنگ ہماری فوج نے قوم کی قربانیوں سے جیتی جس میں اےپی ایس جیساواقعہ بھی تھا۔