اردو ادب کے مایہ ناز ادیب و شاعر، ناقد، محقق اور مقبول کالم نگار مشفق خواجہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں نابغۂ روزگار کہا جاتا ہے۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔
مشفق خواجہ کو نہ صرف ان کے فکاہیہ کالموں نے ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول بنایا بلکہ وہ طنز و مزاح لکھنے والوں میں اپنے موضوعات اور اسلوب کی وجہ سے بھی ممتاز ہوئے۔ مشفق خواجہ نے قلمی نام سے اپنے کالموں کی بدولت ادب اور صحافت کی دنیا میں بھی خوب نام بنایا۔ موضوع کی سطح پر مشفق خواجہ کا سب سے اہم کارنامہ تو یہی ہے کہ انھوں نے باضابطہ معاصر ادیب و شعرا اور تازہ ادبی مسائل کو اپنے فکاہیہ کالموں میں جگہ دی اور یوں ’’ادبی کالم نگاری‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ کون ہے جسے مشفق خواجہ نے اپنے قلم کی نوک سے نہ گدگدایا ہو اور شعر و ادب میں گروہ بندی، پست تحریروں، شہرت و جاہ اور انعامات کے لیے ادیب و شعرا کی قلابازیوں، داؤ پیچ اور سچ جھوٹ کے ساتھ ان کی بعض حرکتوں پر گرفت نہ کی ہو۔ غیر ادبی عناصر، رجحانات اور تحریکوں کے نام پر ادب کو بے ادبی سکھانے والوں کی نشان دہی اور صنفی تجربات کے نام پر مذاق کرنے والوں کو انھوں نے خوب بے نقاب کیا۔ آج مشفق خواجہ کی برسی ہے۔
ایک قصّہ پڑھتے چلیے، مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جگن ناتھ آزاد (شاعر، ادیب اور محقّق) مشفق خواجہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ بات چیت کے دوران جگن ناتھ آزاد نے متعدد بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے ہی درد ناک انداز میں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘
خواجہ صاحب نے آٹھ دس مرتبہ سیلاب کی اس دل خراش داستان کو ان کی زبانی سننے کے بعد عرض کیا، ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘
آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے: ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لیے آئے اور ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے، جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘
اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور جتنے دن مشفق خواجہ کے ساتھ رہے، ان سے اپنی کتابوں کے ضایع ہوجانے کا ذکر نہیں کیا۔
مشفق خواجہ اپنا کالم بہ عنوان خامہ بگوش کو بہت لطافت اور زبان کی چاشنی سے تحریر کیا کرتے تھے اور اس میں ادبی موضوعات ہی نہیں سیاسی اور سماجی مسائل بھی خوب اجاگر ہوتے رہے اور وہ طنز و مزاح کے ساتھ عوام کی آواز بنے۔ تاہم ان کے کالموں کو اگر ہم صنف کے اعتبار سے ادبی کالم کہیں تو غلط نہ ہو گا جس میں انھوں نے معاصر اہلِ قلم شخصیات سے متعلق کھل کر لکھا اور کالموں میں ادبی گروہ بندیوں کو فروغ دینے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو بے نقاب کیا۔
مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدُالحیّ تھا۔ وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور بی اے (آنرز) کے بعد 1958ء میں ایم اے (اردو) کیا۔ کئی برس تک انجمن میں علمی و ادارتی شعبہ کے نگراں رہے۔ یہاں خواجہ صاحب نے بحیثیت مدیر ماہ نامہ’’قومی زبان‘‘ سہ ماہی’’اردو‘‘ اور ’’قاموس الکتب‘‘ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان کی چند کتب ’’غالب اور صفیر بلگرامی‘‘، ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘، ’’خامہ بگوش کے قلم سے ‘‘، ’’سخن در سخن‘‘، ’’سخن ہائے نا گفتنی‘‘، ’’سخن ہائے گسترانہ‘‘(ادبی کالموں کا انتخاب)، ’’ابیات‘‘(شعری مجموعہ)، ’’کلیاتِ یگانہ‘‘(ترتیب وتدوین) کے عنوان سے شایع ہوئیں۔ مشفق خواجہ نے ادبی رسائل اور جرائد میں مضامین کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر درجنوں فیچر بھی لکھے۔
صدارتی ایوارڈ یافتہ مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔