منگل, فروری 4, 2025
اشتہار

مسلمان اور تجارت

اشتہار

حیرت انگیز

ایک رِیت سی پڑگئی تھی کہ مسلمان رؤسا اور جاگیرداروں کی آمدنی کا حساب تو ہندو رکھتے اور خرچ کا حساب خود عدالت کو قرقی کے وقت بنانا پڑتا تھا۔

اعمال کے حساب کتاب کا جنجال بھی ہم نے کراماً کاتبین کو اور متعلقہ آڈٹ منکر نکیر کو سونپ رکھا ہے، ہمیں روپیہ ہمیشہ کم ہی معلوم ہوتا ہے۔ مسلمان 3 اور 2 کو 4 نہیں بلکہ ایک کم پانچ کہتا ہے، جب کہ ہندو ایک اوپر 3 کہتا ہے۔ یہ قول رابرٹ کلایو کے ایک ہم عصر سے منسوب ہے کہ روپیہ بچاکر رکھنے کے معاملے میں مسلمان چھلنی کی طرح ہوتا ہے اور ہندو اسفنج کی مانند۔

سوداگری کو کسر شان سمجھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دودمان تیموریہ پر جب ملکِ خدا تنگ ہوا تو اس کا آخری چشم و چراغ مہاجن سے قرض لے کر فوج کی تنخواہیں چکاتا اور اپنی غزلوں کی اصلاح کرنے والے استاد نجم الدولہ، دبیرالملک مرزا، اسد اللہ خان غالب کو چاندی کے طشت میں زربفت کے تورہ پوش سے ڈھکا ہوا سیم کے بیجوں کا توشہ بھیجتا۔

تقسیم سے پہلے کے تین چار سو برسوں میں خاص کر برصغیر کے مسلمان نے تجارت کو اپنی شانِ قلندری کے خلاف سمجھا۔ اس لیے کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ ذرا سی غفلت یا لاپروائی سے کہیں منافع نہ ہوجائے۔ چمڑے اور کھالوں کی ساری تجارت البتہ مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی جس کی تین وجہیں تھیں۔ اول تو یہ انہی مرحومین کی آخری نشانی تھی جنہیں وہ بہ رغبت کھا چکے تھے۔ دوم یہ کہ ہندو اس کاروبار کو ناپاک سمجھتے تھے۔ سوم، خوش قسمتی سے ان تاجروں کا تعلق چنیوٹ سے تھا جو دلّی کے دربار سے ہنوز دور تھا۔ ان کی سوجھ بوجھ کے سامنے مارواڑی بھی کان پکڑتے ہیں۔ مشہور ہے کہ چنیوٹی یا میمن پاگل ہوجائے تب بھی دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے ہی گھر میں پھینکتا ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پرگندہ طبع لوگ۔

(اردو کے مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں