تازہ ترین

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر

راولپنڈی: نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے...

عظیم مسلم مفکر ابن عربی کو گزرے779 برس بیت گئے

آج عالم اسلام کے مایہ ناز صوفی ، عالم ، شاعر اور مفکر ابن عربی کی برسی ہے ، آپ سنہ 1240 عیسوی میں اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

آپ کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلس ہے اور آپ دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علما اور علوم كا بحر بیكنار ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ كو شیخ اکبرکے نام سے یاد كیا جاتا ہے اور تمام مشائخ آپ كے اس مقام پر تمكین كے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلامى میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔

ان کا قول تھا کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر صوفیا انھیں شیخ الاکبر کہتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ جن میں فصوص الحكم اور الفتوحات المکیہ (4000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المكيۃ 560 ابواب پر مشتمل ہے اور کتب تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

شیخ اکبر ابن العربی کا پورا نام "محمد بن علی بن محمد ابن العربی الطائی الحاتمی الاندلسی” تھا۔ اور آپ کے ہاتھ سے لکھے خطی نسخوں پر آپ یہی نام لکھتے آئے ہیں۔ تدبیرات الہیہ کے ہاتھ سے لکھے نسخے کا عکس ملاحظہ کریں جس پر "محمد بن علی ابن العربی” واضح پڑھا جا سکتا ہے۔

مشرق والے (خصوصا وہ لوگ جن کی مادری زبان فارسی ہے) آپ کو ابن عربی کہتے ہیں جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت الشیخ الأکبر کے لقب سے ہوئی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں 27 رمضان المبارک 560ھ مطابق 1165ء کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے، جو مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔

ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سے موحدون کے ہاتھ میں تھا، اس لیے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گزارا۔

ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرتا تھا۔

ابن عربی نے پہلی بار 590ھ میں اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی، جو الغرب(مراكش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران میں آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔

اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے دوران میں آپ کو ابو محمد عبد اللہ بن خمیس الکنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو پیشہ کے اعتبار سے جراح (سرجن) تھے اور جن کا تذکرہ آپ نے اپنی کتب روح القدس اور درہ الفاخرہ میں کیا ہے۔ ان کی صحبت میں آپ ایک سال سے کچھ کم عرصہ رہے تھے۔

مکہ میں ابن عربی کا پہلا قیام دو برس کا تھا، جس کے دوران میں وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ آپ کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتب ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ نے فتوحات مکیہ پر کام شروع کیا، جس کے 560 ابواب کی فہرست ابتدائییے کار میں ہی تیار کر لی گئی تھی

۔ مصنف کو اندازہ تھا کہ یہ کام ایک پوری عمر کا متقاضی تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ جس میں آپ سفر یا حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے۔ آپ نے اپنی مصنفات کی تعداد 251 دی ہے، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتب کے عنوان درج کیے گئے ہیں ۔

آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ مکہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطہءعروج پر پہنچی، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق ابو شجاع ظاہر بن رستم بن ابو رجا الاصفحانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا، جس کی نوخیز لڑکی نظام عین الشمس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کی شاعری کی روح بنی۔ خود آپ نے اپنے دیوان ترجمان الاشواق میں نظام کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے۔ مگر بعد میں

جب آپ پر مخالفوں نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا، تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح (ذخائر الاعلاق) لکھی، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔

620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی۔ وہاں پر آپ نے 28 ربیع ا لآخر 638ھ مطابق ء1240کو وفات پائی اورجبل قاسیون کے پہلو میں دفن کیے گئے، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے ۔

Comments

- Advertisement -