سسلی وہ جزیرہ اور ایسا تاریخی مقام ہے جہاں سے اسلامی علوم یورپ تک پہنچے۔ یہ جزیرہ 130 سال تک مسلمانوں کی حکومت میں شامل رہا اور 1091ء میں نارمن قوم نے اسے فتح کرلیا۔
اس جزیرے کے باسی یونانی، عربی، لاطینی تینوں زبانیں بولتے تھے۔ اس دور میں بعض علما، خاص طور پر یہودی، ان زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جب جزیرے پر عیسائیوں حکومت قائم ہوگئی تو انھوں نے عربی سے تراجم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ مسلمانوں کے علم اور ان کی ریاضت کو زبانوں پر اپنے عبور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منتقل کرتے چلے گئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شاہ راجر اوّل سے لے کر شاہ فریڈرک ثانی تک اور چند شاہانِ وقت نے علما کی سرپرستی کی اور اس کام پر انھیں سراہتے ہوئے بے دریغ رقم خرچ کی۔ انھوں نے بلاتفریقِ مذہب سلسلی کے ایک شہر میں قابل علما کو دعوت دے کر بلایا اور ان سے ترجمہ کا کام لیا۔
گویا حکم رانوں نے مترجمین کی جماعت تیّار کرلی جس نے عربی اور یونانی سے کتابوں کو لاطینی میں منتقل کیا۔ موضوع کے اعتبار سے زیادہ تر کتب ہیئت اور ریاضی کی تھیں۔
سسلی میں تیرھویں صدی عیسوی میں طبّی کتب کا ترجمہ بھی ہوا۔ مائیکل اسکاٹ نے ارسطو کی علمُ الحیوانات کی کتاب کا عربی اور عبرانی سے ابوسینا کے حاشیے کے ساتھ 1233ء میں ترجمہ کیا۔
ترجمہ کا کام شمالی اٹلی میں بھی ہوا۔ عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر یورپ پہنچنے والی کئی کتب ایسی ہیں جن کا آج کوئی نشان نہیں ملتا۔ اکثر کے مترجم نامعلوم ہیں۔
الغرض سیکڑوں کتابیں عربی زبان سے لاطینی میں منتقل ہوئیں اور یورپ نے ان سے استفادہ کیا۔ اس زمانے میں یورپ علم و فضل سے بیگانہ اور شرف و فخر سے محروم تھا، لیکن وہاں اس علم کی بدولت تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا اور یورپ میں علمی موضوعات پر مباحث ہی نہیں بلکہ فکرو تدبّر کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے اسے اقوام میں ممتاز اور نمایاں کیا۔
(تاریخِ یورپ سے چند پارے)