طبّ کے حوالے سے ایک ممتاز نام ابن النفیس کا ہے۔ وہ 607ھ (1210ء) کے لگ بھگ دمشق میں پیدا ہوا۔ وہیں بیمارستانِ نوری میں طب کی تعلیم حاصل کی۔ ابن النفیس محض طبیب ہی نہیں بلکہ مستند عالم، اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کا بھی ماہر تھا۔
وہ اپنی طبّی صلاحیتوں کو نکھارنے لے لیے قاہرہ چلا گیا جو عملی اور نظری طب کے اعلیٰ مرکز کے طور پر خود کو صدیوں سے منوا چکا تھا۔مصر میں ابن النفیس کو "رئیس الاطباء "کا خطاب دیا گیا۔ وہ وہاں بیمارستانِ ناصری سے وابستہ ہوا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی دیتا رہا۔
اس کی سب سے بڑی طبّی تصنیف "الشامل فی الطب” ہے، جو مکمل نہیں ہو سکی اور اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے۔
امراضِ چشم کے حوالےسے بھی ابن النفیس کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ویٹیکن میں محفوظ ہے۔ ابن النفیس کی عظمت پچھلی صدی میں ظاہر ہوئی، ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح "تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے دورانِ خون سے متعلق اہم انکشاف کیے اور جو نظریہ دیا اس پر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے تحقیق کی جب کہ وہ ان سے اندازاً تین سو سال قبل اسے بیان کر چکا تھا۔ اس کی طبّی تصانیف میں جرات اور آزادیِ اظہارِ رائے کا بھرپور مظاہرہ ملتا ہے جو ان کے زمانے کے علما میں بالکل مفقود ہے۔
مغربی دنیا کو اس نظریے کا علم اس لیے نہیں ہو سکا کہ ابن النفیس کی اس شرح کے تراجم نہ ہو سکے۔ لاطینی میں صرف ایک ترجمہ ہوا تھا جو بہت ناقص تھا۔
وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب علم و فنون مسلمانوں کی قلمرو تھے، اس قلمرو کی سرحدیں ابھی سمٹنا شروع نہیں ہوئی تھیں اور انحطاط اور انتشار کا زمانہ ابھی کچھ دور تھا۔
ان کی تصانیف میں غیر طبی موضوعات پر بھی بہت ساری کتب ہیں جن میں کچھ قابلِ ذکر یہ ہیں : الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق۔
کہتے ہیں وہ طویل القامت شیخ تھے، ڈھیلے گال اور دبلے تھے، صاحبِ مروت تھے، شادی شدہ نہیں تھے، چنانچہ اپنا گھر، مال اور تمام کتب بیمارستانِ منصوری کے لیے وقف کردی تھیں۔