مسلمانوں نے اسپین پر حکومت قائم کی تو تاریخِ عالم گواہ ہے کہ حکم رانوں نے اسلامی ثقافت اور علم و فنون کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ قرطبہ جو اس وقت کا ایک بڑا شہر تھا علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ یہاں عظیم فلاسفہ، سائنس داں اور فنون کے ماہر پیدا ہوئے جن کا علم و فن یورپ کی تاریکیوں کو دور کرنے کا باعث بھی بنا۔ مسلمانوں نے اسپین میں 1492ء تک حکومت کی اور وہاں عبدالرّحمٰن اوّل نے بڑا نام و مقام پایا۔
ہم یہاں اسپین میں اسلامی فنِ تعمیر کی بنیاد رکھنے والے عبدالرّحمٰن اوّل کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا زمانہ 731ء – 788ء تک بتایا جاتا ہے۔ اموی خلیفہ نے اپنے دور میں قرطبہ میں اسلامی فن تعمیر کے شان دار منصوبوں کا آغاز کیا۔ ان میںقرطبہ کی جامعہ مسجد (مسجد القریٰ) اور مسجد الزہرہ کی تعمیر کو امتیاز حاصل ہے۔ عبدالرحمٰن اوّل کا تعلق دمشق سے تھا اور انھوں نے دمشق میں فن تعمیر کو مثالی بنا دیا اور آج یہ تعمیرات عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔
مسجد قرطبہ کی بنیاد 784ء اور 786ء کے درمیان رکھی گئی اور تعمیر کے بعد گنجائش نہ ہونے پر اس کی توسیع کی گئی۔ ابتدائی تعمیر کے دوران دہری محرابیں، خوبصورت ستون اور آرائشی خطاطی شامل کئی گئی تھی۔ ان تعمیرات میں عرب، بربر اور ہسپانوی فنون کے امتزاج کو فروغ ملا۔ یہاں پر مسجد اموی دمشق کی طرز پر دہری محرابوں کو متعارف کرایا گیا جس کا مقصد عمارت کی اندرونی کشادگی کا احساس دلانا تھا۔ محرابوں کو مختلف رنگوں کے پتھروں خصوصاً سرخ و سفید کے متبادل استعمال سے مزین کیا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ محراب اسلامی رومی طرز تعمیر کا امتزاج تھی۔ مسجد کی تعمیر میں تقریباً 1250 ستونوں کا استعمال کیا گیا۔ محرابوں کی اندرونی طرف گولائی بنانے کے لیے اینٹ اور پتھر کا استعمال ہوا۔ جب مسلمانوں کی آبادی اسپین میں بڑھی تو مسجد میں نمایاں توسیع کی گئی۔ یہ کام عبدالرحمٰن دوم نے کیا اور پرانے طرزِ تعمیر کے مطابق ہی اسے توسیع دی گئی۔ دوسری توسیع عبدالرحمان سوم کے زمانے میں ہوئی جس میں ایک نیا محراب، مینار اور باغ بھی شامل کیا گیا۔
اس مسجد کی تعمیر اور تزئین میں اینٹ، چونے کا پتھر، گرینائٹ اور تھوبے کا جا بجا استعمال کیا گیا تھا۔ مسجد کے فرش سنگ مرمر اور گرینائٹ سے بنائے گئے۔ اندرونی تزئین میں شیشے کے موزیک کا استعمال کیا گیا جب کہ اس کا گنبد الگ خصوصیت کا حامل ہے۔ یہ گنبد محراب کے اوپر واقع ہے۔ جامع مسجد کا مینار شمالی افریقہ کے میناروں کی طرز پر بنایا گیا۔ اس طرح قرطبہ کی جامع مسجد اپنے عہد میں اسلامی تمدن کا مرکز رہی۔
برصغیر کے عظیم فلسفی شاعر علامہ اقبال نے 1933ء میں مسجد قرطبہ کا دورہ کیا۔ علامہ اقبال اس مسجد کی تعمیر اور اس کی شان و شوکت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ مسجد مسلمانوں کے عظیم ماضی کی نشانی ہے اور اس پر اپنی نظم میں آج کے مسلمانوں کو ایک آفاقی پیغام دیا جو تقسیم سے قبل بہت مشہور ہوئی۔ مسجد قرطبہ کی خوب صورتی کو بیان کرتے ہوئے اقبال نے اس کی ویرانی اور اسپین میں مسلمانوں کے زوال کو بھی موضوع بنایا تھا اور اسے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مقام فکر قرار دیا تھا۔
عبدالرحمٰن اوّل نے اس مسجد کے علاوہ قرطبہ شہر کو کئی ترقیاتی منصوبے دیے جن میں سڑکیں اور عوامی سہولتوں کی تعمیرات شامل تھیں۔ حمام اور بازار بنائے گئے اور آب پاشی کا حیرت انگیز اور شان دار نظام متعارف کرایا جس نے وہاں زراعت کو فروغ دیا۔ کئی باغات بھی تعمیر کروائے جو اپنی مثال آپ تھے۔ آج بھی اسپین اور اس کی تاریخی عمارات کے ساتھ مسلمانوں کے دور کی تعمیرات کے کھنڈرات اور آثار قابلِ دید ہیں اور سیاح بڑی تعداد میں اس عالمی ورثہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔