اتوار, دسمبر 22, 2024
اشتہار

تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

اشتہار

حیرت انگیز

تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

- Advertisement -

تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں