جب کوئی مسلمان سرزمینِ حجاز کے سفر اور بیتُ اللہ کی زیارت (حج) کر کے واپس آتا ہے تو اہلِ خانہ، اس کے قرابت دار اور دوست احباب سبھی اس بات کے شدید مشتاق رہتے ہیں کہ وہ انھیں اپنے اس سفر اور زیارتوں کا حال سنائے اور مکّہ و مدینہ کے حالات تصیل سے بتائے۔
خاص طور پر لوگ حاجی سے چاہتے ہیں کہ وہ خانۂ کعبہ اور روضۂ رسولﷺ کا آنکھوں دیکھا حال انھیں سنائے۔ اسی طرح جب کوئی ایسا مسلمان حج سے لوٹتا ہے جو علمی و ادبی شوق رکھتا ہو یا قلم کار ہو تو وہ کوشش کرتا ہے کہ سفر نامہ لکھ کر نہ صرف بلاوے کے آرزو مندوں اور مشتاق مسلمانوں تک اپنے جذبات پہنچائے بلکہ عازمینِ حج کی راہ نمائی بھی کرسکے۔
اردو میں حج کے سفر کی روداد رقم کرنے کا آغاز تو انیسویں صدی کے وسط میں ہوا، لیکن عربی اور فارسی میں سفر نامۂ حج کی روایت پہلے سے موجود تھی جس سے اردو داں طبقہ بھی متاثر ہوا۔ عربی اور فارسی زبانوں میں سفر نامۂ حج کے بعد اردو میں بھی اس کا رواج پڑا۔ یہاں ہم عربی اور فارسی زبانوں کے چند مشہور سفر ناموں کے ساتھ اردو کے سفر ناموں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
’’سفر نامۂ حکیم ناصر خسرو‘‘ حج کا یہ سفر نامہ قدیم فارسی زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔ حکیم ناصر خسرو نے 1047ء میں اپنا سفر شروع کیا تھا اور پانچ برس بعد وہ ایران، آذربائیجان، شام، مصر، عرب اور عراق سے ہوتے ہوئے لوٹے تھے۔ یہ فارسی کا قدیم ترین سفرنامۂ حج ہے جو آج سے تقریباً ہزار سال پہلے لکھا گیا تھا۔
’’رحلۃ ابنِ جبیر‘‘ جسے المعروف ابنِ جبیر اندلسی نے تحریر کیا تھا، عربی زبان میں حجِ بیتُ اللہ کی غرض سے کیے گئے سفر کی روداد ہے۔ ابنِ جبیر نے 1183ء میں یہ سفر شروع کیا اور 1185ء میں واپس ہوئے۔ اس سفر میں انھوں نے حجاز کی سرزمین کے علاوہ مصر، عراق اور شام کی بھی سیّاحت بھی کی۔
ابنِ بطوطہ کے نام سے تو سبھی واقف ہیں۔ انھوں نے عربی زبان میں جو سفر نامہ تحریر کیا تھا، اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہی ان کے حج اور زیارتوں کے لیے کیے گئے سفر کی کہانی بھی بیان کرتا ہے۔ اس سفر نامۂ حج کے ساتھ مصنّف نے کئی ممالک کی سیر کی اور خاص طور پر مکّہ، مدینہ، خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی سے متعلق اپنے مشاہدات اور معلومات کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔
حج کا ایک سفر نامہ ’’فیوض الحرمین‘‘ بھی ہے جس کے مصنّف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ 1730ء میں انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد عربی میں اپنا سفر نامہ رقم کیا تھا۔
فارسی زبان کا ایک قدیم سفرنامۂ حج عبد الحق محدث دہلوی کا بہ عنوان ’’جذبُ القلوب الیٰ دیارِ المحبوب‘‘ ہے۔ مصنّف نے 1590ء میں حج کیا تھا۔
اردو زبان کے اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور نثر نگار نواب محمد مصطفیٰ خان شیفتہ نے جو سفرنامۂ حج تحریر کیا تھا، وہ بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے اپنا سفر 1839ء میں شروع کیا تھا اور حجاز سے دو سال چھے دن بعد وطن لوٹے تھے جہاں آکر اس سفرِ حج کی روداد کو تحریری شکل میں پیش کیا۔ ان کے سفرنامۂ حج کا نام ’’ برہِ آورد ‘‘ ہے جو فارسی زبان میں لکھا گیا تھا۔
بعد کے ادوار میں جب عربی و فارسی کی جگہ اردو فروغ پائی تو 1847ء میں یوسف خان کمبل پوش کا پہلا سفر نامہ ’’تاریخِ یوسفی‘‘ شائع ہوا۔ نواب سکندر بیگم نے ’’یادداشتِ تاریخ و قائع حج‘‘ کے عنوان سے 1864ء میں اپنا سفرنامۂ حج لکھا، لیکن یہ مخطوطات کی شکل میں ہی رہے۔ حاجی منصب علی خان کے سفر نامۂ حج کو اردو کا پہلا سفر نامہ کہتے ہیں جس کا نام ’’ماہِ مغرب المعروف بہ کعبہ نما‘‘ تھا۔ یہ 1871ء میں میرٹھ سے شائع ہواتھا۔
اسی ابتدائی دور کا ایک سفر نامۂ حج تجمل حسین کا ’’سراج الحرمین‘‘ ہے۔ اس کے بعد ’’سفر نامۂ حرمین‘‘ جو حاجی محمد زردار خان کا تحریر کردہ ہے شایع ہوا۔ اسے 1873ء میں طبع کیا گیا تھا۔ انیسویں صدی میں برصغیر کی تقسیم سے پہلے اور بعد میں اردو زبان میں کئی سفرنامے سامنے آئے جو مستند اور جیّد علما اور روحانی ہستیوں کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات کے تحریر کردہ تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں نواب احمد حسین خان نے ’’سفر نامۂ حجاز و مصر‘‘ تحریر کیا جو 1904ء میں شائع ہوا۔ ’’الفوزُ العظیم‘‘ کے نام سے مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کا تحریر کردہ سفر نامۂ حج 1967ء میں شائع ہوا۔ اسی طرح مصنّف و ادیب مولانا عبد الماجد دریا بادی، مشہور محقق و مؤرخ مولانا غلام رسول مہر، مشہور عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن ندوی، مشہور شاعر ماہرُ القادری، مشہور عالمِ دین اور مایہ ناز ادیب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، معروف فکشن نگار ممتاز مفتی، معروف ادیب مختار مسعود اور دیگر نے بھی سرزمینِ حجاز کے سفر اور حج و زیارتوں سے متعلق ذاتی کیفیات اور قلبی تاثرات کو مختلف پیرائے اور اسلوب میں پیش کیا ہے۔
(صلاح الدّین خان کے تحقیقی مضمون سے ماخوذ)