ہفتہ, دسمبر 28, 2024
اشتہار

انتخابی نتائج پر اعتراضات، الزامات: ایمرجنسی یا مارشل لا کے حوالے سے مصطفیٰ کمال کی خصوصی گفتگو

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے جس طرح کے الزامات اور بیانات آ رہے ہیں، اگر یہ ایسا چلتا رہا تو بعید نہیں ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق موجودہ سیاسی صورت حال اور حکومت سازی کے لیے ہونے والی کوششوں کے تناظر میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کی، مصطفیٰ کمال سے سوال کیا گیا کہ کیا ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لا لگ سکتا ہے؟

انھوں نے جواب دیا ’’جس طرح کے الزامات اور بیانات آ رہے ہیں وہ ملک اور جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہیں، جن کو نتائج پر اعتراضات ہیں وہ اپنی بات کرنے متعلقہ فورم پر جائیں، لیکن بارڈر یا ریڈ لائن کراس نہیں کرنا چاہیے، اگر ریڈ لائن کراس ہوئی تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

- Advertisement -

انھوں نے کہا ’’الیکشن سے استحکام آنا چاہیے تھا لیکن جو باتیں کی جا رہی ہیں اس سے انتشار اور ہیجان کی کیفیت بڑھ رہی ہے، اسی طرح سے مظاہرے اور بیان بازی چلتی رہی تو کوئی بھی چیز بعید نہیں ہے، الزامات کا سلسلہ بڑھا تو ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کو بھی اعتراضات تھے، لیکن ثبوت و شواہد کے باوجود کھبی بھی لائن کراس نہیں کی، انتخابات کے بعد وزارتوں کی پیش کش کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والی ملاقاتوں میں ایک بار بھی حکومت میں جانے یا وزارتوں کا ذکر نہیں آیا، سب باتیں جھوٹی ہیں نہ ہمیں وزارتوں کی کوئی پیش کش ہوئی نہ ہم نے کسی وزارت کی ڈیمانڈ کی۔

انھوں ںے کہا ’’ن لیگ کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے کہ وہ ساتھ دیں گے لیکن اہم مسئلہ حکومت بننے یا اس میں شامل ہونے کے بعد عوامی مسائل کے حل کا فارمولہ تشکیل دینا ہے، منقسم مینڈیٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود حکومت چل سکتی ہے اگر ملکی مفادات کے فیصلوں پر تمام سیاسی قیادت یک جا ہو جائے۔‘‘

مصطفیٰ کمال نے کہا ’’ہم اپنے تمام اختلافات رکھتے ہوئے پاکستان کی خاطر سب کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنا کر چلنا چاہتے ہیں، ساری خرابی کی جڑ 2018 کے الیکشن میں پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر ڈبے اٹھا کر لے جانا اور تین دن بعد آراوز کے ذریعے رزلٹ دینا تھا۔‘‘

آئین میں ترمیم کے حوالے سے انھوں نے کہا ’’جب آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر رہے تھے تب معلوم تھا اس کو پاس کرانا مشکل مرحلہ ہوگا، کیوں کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، پارلیمنٹ جیسے ہی تشکیل پائی پہلے اجلاس میں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کر دیں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ جب مسودہ پارلیمان میں جمع کرایا جائے تو مسلم لیگ ن کی بھی تائید اور اس کے تمام ووٹ ساتھ ہوں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا ن لیگ سے بارہا ملاقاتوں میں ان ترامیم پر بات ہوئی، ان کی پوری حمایت ہمارے ساتھ ہے، ن لیگ کی تائید کے بعد ترامیم کی منظوری کے لیے جتنے ووٹ کم رہے، اسے پورا کرنے کے لیے پارلیمان میں موجود ہر پارٹی کے پاس جائیں گے، آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی اور موجودہ تحریک انصاف کی قیادت سے بھی بات کریں گے، ملک کے لیے یہ آب حیات ہے جو اس کے خلاف جائے گا وہ عوام کے سامنے خود ایکسپوز ہو جائے گا۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ اگر اختیارات وزرائے اعلیٰ ہائوس سے گراس روٹ لیول پر نہیں آئے تو ملکی نظام نہیں چل سکے گا، صوبائی اور بلدیاتی حکومت نہ ہونے کے باعث مشکلات ہوں گی، لیکن تباہی و بربادی پر چپ نہیں بیٹھ سکتے، کراچی اور حیدرآباد نے ہمیں اپنا ووٹ دے کر اپنے حقوق کے دفاع کا لائسنس دیا ہے۔

انھوں نے کہا ’’ہم پیپلز پارٹی کے منتخب لوگوں سے بات نہیں کر سکتے لیکن محکموں کے سیکریٹری اور افسر جو ریاست کے نوکر ہیں، ان سے ہمارے ایم این اے، ایم پی اے بات کریں گے، اب حق پرست اراکین اسمبلی سیوریج، پانی، انفرا اسٹرکچر، اور ٹرانسپورٹ سب کام کروائیں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی کوشش ہوگی وفاقی حکومت سے کراچی، حیدرآباد اور شہری سندھ کے لیے بڑے پیکج لے کر آئیں تاکہ براہ راست ان فنڈز سے کام کرایا جا سکے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں