ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

یومِ وفات: مرزا غالب بھی شیفتہؔ کی سخن فہمی کے معترف تھے!

اشتہار

حیرت انگیز

غالب لکھتے ہیں کہ میں اپنے دیوان میں اس وقت تک شعر شامل نہیں کرتا جب تک شیفتہؔ اسے پسند نہ کر لیں۔

نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم اور زبان و بیان پر کمال قدرت رکھتے تھے، لیکن وہ سخن فہمی کا اعلیٰ مذاق ہی نہیں‌ رکھتے تھے بلکہ قادرُالکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شیفتہ نے نثر بھی خوب لکھی۔ اردو کے ساتھ انھیں فارسی زبان میں بھی کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے اپنے علمی و تحقیقی کارناموں اور شعر و ادب میں اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مقام پایا اور انھوں نے بھی شیفتہؔ ہی کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

1869ء میں شیفتہ نے آج ہی کے دن اس دارِ‌ فانی سے کوچ کیا تھا۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحابِ قلم و قرطاس میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ پاتی ہے۔ خود معاصر شخصیات بھی شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف اور مداح رہی ہیں۔

- Advertisement -

نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔

ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں‌ نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں مستند اور نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

یہاں ہم شیفتہ کے سفرنامۂ حجاز کا بھی ذکر کریں گے جس میں اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی میں‌ گزرے وقت کی روداد بھی شامل ہے جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن قدرت یوں مہربان ہوئی کہ وہ سب زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اولین سفر ناموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

اس کتاب میں ایک طرف جہاں اس دور کے مکؑہ، مدینہ، طائف، جدہ اور یمن کے حالات و واقعات، ثقافت، سیاست اور معاشرت سے آگاہی ہوتی ہے، وہیں بحری جہاز کی تباہی کے بعد شیفتہ اور دیگر مسافروں کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے میں پناہ لینے کا واقعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل اور مدد کی تلاش کو نکلے اور کئی روز بعد دو سو کے قریب افراد کو وہاں سے نکال لیا گیا۔

اردو اور فارسی کے شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں