میں بہ مشکل ابھی ٹین ایج میں داخل ہو رہا تھا جب پاکستان ٹائمز کے باہر ایک کڑی دوپہر کی دھوپ میں، میں نے فیض صاحب کے آگے اپنی آٹو گراف بک کھول کر کہا ”آٹو گراف پلیز…“
فیض صاحب نے آٹو گراف بک پر ایک مصرع گھسیٹ دیا اور ان کی لکھائی ہمیشہ گھسیٹی ہوئی لگتی تھی۔ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے!
میں کسی حد تک قلم کو جانتا تھا لیکن یہ لوح کیا بلا ہے نہیں جانتا تھا اور ان کی بچوں کی مانند پرورش کے بارے میں تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا چناں چہ میں نے گھگھیا کر درخواست کی کہ وہ رباعی لکھ دیں، رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔
تو فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک اور سوٹا لگا کر کہا۔ بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں۔ تو میں نے فوراً کہا۔ جی مجھے یاد ہے۔ میں آپ کو لکھا دیتا ہوں اور میں نے وہ رباعی فیض صاحب کو لکھوائی۔ یعنی آج سے تقریباً 65 برس پیش تر میں فیض صاحب کو شعر لکھوایا کرتا تھا۔ اس رباعی کے پہلو میں ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے بھی آج تک موجود ہے اور میں اس مصرع کے بارے میں ہمیشہ مخمصے میں ہی رہا۔ اور پھر میری حیات میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ کائنات کے آغاز کی مانند ہر سو تاریکی تھی۔ آمریت، جبر اور ظلم کی اتھاہ تاریکی اور اس میں ایک چراغ روشن ہوا۔ احتجاج کا۔ ”الفتح“ کا۔ میں نہیں مانتا اس صبحِ بے نور کو۔ ایک ایسا چراغ اور اسے روشن کرنے والا محمود شام تھا۔ اور تب پہلی بار مجھ پر آشکار ہوا کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مصرع محمود شام کی ذات کی مکمل تفسیر ہے۔
محمود شام اور مجھ میں ایک قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں اس دھرتی میں سے پھوٹنے والے بوٹے ہیں جو سندھ اور چناب کے پانیوں میں سے اپنے تخلیقی جوہر کشید کرتے ہیں۔
(از قلم: مستنصر حسین تارڑ)