جمعرات, جنوری 30, 2025
اشتہار

مظفر علی سید:‌ یادوں کی سرگم کا سَر ورق

اشتہار

حیرت انگیز

اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم مظفّر علی سیّد کے ادبی دنیا میں کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیم احمد، انتظار حسین اور مشفق خواجہ جیسی شخصیات ان کی قدر داں تھیں۔ ان کے علمی ذوق و شوق اور مطالعہ کی شہرت بھی ایسی تھی کہ کالج میں بھی طلبا فنونِ لطیفہ سے متعلق کوئی سوال اور گفتگو انہی سے کرتے تھے۔ آج مظفر علی سیّد کی برسی ہے۔

مصنّف اور معروف ادبی شخصیت مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ 1929ء میں‌ پیدا ہونے والے مظفر علی سیّد نے تنقید کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے نام بنایا اور تصنیف و تالیف کے میدان میں قابلِ ذکر کام کیا۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مظفر علی سید نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے عنوان سے مرتب کیے۔

خاکہ نگاری مظفر علی سید کا ایک نمایاں حوالہ ہے اور ان کے خاکوں‌ کا مجموعہ ‘یادوں کی سرگم’ کے نام سے موجود ہے۔ انھوں نے معلوماتِ عامّہ پر بھی کتاب تصنیف کی تھی۔ ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ فکشن، فن اور فلسفہ کے نام سے کیا اور سید عابد علی عابد کی ایک کتاب پر تنقید بھی لکھی۔

کہتے ہیں کہ ان کی ساری زندگی مطالعہ کرتے ہوئے گزری۔ یعنی بہت کم ایسا ہوا کہ مظفر علی سید نے کسی روز کوئی کتاب نہ کھولی ہو اور پڑھا نہ ہو۔ وہ ایک آزاد منش انسان تھے جس نے اپنی تحریروں کو سنبھال کے نہیں‌ رکھا، لیکن خاکوں کی شکل میں ان کی جو تحریریں‌ ہم تک پہنچیں وہ انھیں ایک بے باک اور منہ زور قلم کا حامل مصنّف ثابت کرتی ہیں تاہم مظفر علی سید کا وصف یہ ہے کہ اپنے خاکوں میں انھوں نے کسی کی شخصی کم زوری اور اس کی خامیوں کو نہیں اچھالا بلکہ وہ شخصیات کو اپنے قلم سے اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ مظفر علی سید کو دکھائی دیے۔ یہ کہا جانا چاہیے کہ مظفر علی سید نے بِلا کم و کاست اپنے ممدوحین کو قاری کے سامنے پیش کیا۔

مظفر علی سید کو لاہور کے کیولری گراؤنڈ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں