تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

مسلمان میزبان کے انٹرویو لینے پر میانمار کی جمہوریت پسند رہنما غصے میں‌آگئیں

لندن: میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی اُس وقت غصہ میں آگئیں تھیں جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک مسلمان میزبان نے انٹرویو کے دوران اُن سے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے سوال کیا۔

دی انڈیپینڈنٹ نیوز پیپر کے صحافی اور حالیہ شائع ہونے والی کتاب ‘دی لیڈی اینڈ دی جنرلز آن سانگ سوچی اینڈ برماز اسٹرگل فار فریڈم’ کے مصنف پیٹر پوفم نے دعویٰ کیا ہے کہ اکتوبر 2013 میں نشر ہونے والے مذکورہ انٹرویو کے موقع پر آنگ سان سوچی نے آف ایئر غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا، ‘ مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ میرا انٹرویو کوئی مسلمان لے گا’.

انٹرویو میں بی بی سی کی پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان میزبان مشعل حسین نے آنگ سان سوچی سے روہنگیا اقلیت کے خلاف ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کا جواب دینے پر زور دیا تھا، واضح رہے کہ میانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔

آنگ سان سوچی کا اصرار تھا کہ وہ تشدد نسلی بنیادوں پر نہیں تھا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بدھ مت کے ماننے والے بھی تشدد کا شکار ہوئے، خوف دونوں جانب موجود تھا۔

پیٹر نے دی انڈیپنڈنٹ میں ہفتے کو آن لائن شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کا ذکر کیا، جس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ یہ انھیں ایک ‘قابل اعتماد’ ذریعے سے معلوم ہوا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رابطہ کرنے پر بی بی سی ترجمان نے اس حوالے سے رائے دینے سے معذرت کرلی، واضح رہے کہ آن سانگ سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر کوئی ایکشن نہ لینے پر پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

میانمار میں بدھ مت کے ماننے والے اکثریت میں ہیں جن کی آبادی 6 کروڑ کے قریب ہے، نصف صدی کی سفاکانہ فوجی حکمرانی کے بعد حال ہی میں اقتدار کی منتقلی کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور گزشتہ سال 8 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔

یاد رہے کہ میانمار کی بدھ مت حکومت روہنگیا مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کرتی آئی ہے اور آمریت کے خاتمے کے بعد یہاں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران روہنگیا مسلمانوں کی آبادیوں پر بدھ مت کے ماننے والوں کے ہجوم نے حملہ کیا اور انھیں ان کے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔

 

Comments

- Advertisement -