رامن راگھو بھارت میں خوف ودہشت کی علامت بننے والا ایک سیریل کلر ہے جس کی کہانی بہت پراسرار ہے اس کی موت قید کے دوران 1990 میں جیل میں ہوئی۔
بھارت میں 1960 اور 70 کی دہائی میں خوف پھیلانے والے سیریل کلر رمن راگھو کی کہانی بہت پراسرار ہے جس نے بہروپ اور نام بدل کر 40 قتل کیے پولیس کے ہاتھوں گرفتار سے قید کاٹنے اور موت تک کیا ہوا یہ سب ایک سنسنی خیز کہانی ہے اور اس میں اتنے اتار چڑھاؤ آئے کہ نہ صرف اس پر بالی ووڈ سمیت دستاویزی فلمیں اور ویب سیریز بنیں بلکہ اس سے تحقیقات کرنے والے پولیس افسر نے پوری کتاب بھی لکھ ڈالی۔
ان فلموں میں ہی معروف بالی ووڈ ہدایتکار انوراگ کشیپ کی فلم رمن راگھو 2.0 ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ سیریل کلر کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے لیکن یہ 100 فیصد درست نہیں ہے۔
بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں رمن رگھو نے 60 کی دہائی کے دوران 40 افراد کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا اور خاص بات یہ تھی کہ کسی کو بھی روایتی یا اس وقت دستیاب جدید ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ان کے سروں پر پتھر اور لوہے کی راڈیں مار کر قتل کیا گیا تھا۔
رمن راگھو کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ممبنی میں ایک شخص نے 9 افراد کو وحشیانہ انداز میں قتل کرنے کے بعد خود پولیس تھانے آکر بتایا کہ اس نے 9 لوگوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ اس کے بھگوان نے اسے یہ قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس کے ساتھ وائرلیس رابطے میں تھا، اسی طرح کی کئی دیگر مضحکہ خیز باتیں مزید کیں۔ تاہم پولیس نے ابتدائی تفتیش میں اس کے غیر مبہم بیان کے بعد اسے ذہنی مریض سمجھ کر چھوڑ دیا جس کے بعد اس نے 40 افراد کی جان لے کر پورے ملک میں سنسنی پھیلائی۔
رمن رگھو کا ممبئی میں شکار وہ لوگ ہوتے تھے جو چھت نہ ہونے کے باعث فٹ پاتھوں سمیت دیگر کھلے مقامات پر سوتے تھے۔ 1965-66 میں ممبئی کے مشرقی مضافات میں جی آئی پی لائن کے آس پاس رہنے والے 19 افراد پر حملہ ہوا جس میں 9 افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ یہ رمن راگھو کی پہلی اجتماعی قتل کی واردات تھی۔
اتنے بڑے اور غیر روایتی قتل نے پولیس کو الجھن میں ڈال دیا اور اس نے پرانے اور عادی مجرموں سے پوچھ گچھ شروع کر دی جب کہ پورے علاقے میں رات کا گشت کیا جانے لگا۔ اسی تفتیش کے دوران پولیس نے ایزام نامی شخص کو پکڑ کر پوچھ گچھ کی تو اس کا اصل نام رمن راگھو نکلا لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے اور غیر مبہم بیان پر اسے چھوڑ دیا لیکن پولیس نے اسے ممبئی چھوڑ دینے کا حکم دیا۔
تاہم یہ سیریل کلر پولیس کی وارننگ کو خاطر میں نہ لایا اور دو سال بعد ہی وہ سندھی تلوائی، ویلسوامی، تھمبی، انّا وغیرہ جیسے ناموں کے ساتھ ممبئی واپس آیا اور اس کی واپسی کے ساتھ ہی 1968 کے وسط تک ممبئی کی سڑکوں پر ایسے ہی واقعات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ فٹ پاتھوں پر سوئے ہوئے معصوم شہریوں کو لوہے کی سلاخوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اس کیس سے جڑے مہاراشٹر پولیس کے سابق ڈی جی راما کانت کلکرنی جو اس وقت ممبئی پولیس میں نئے افسر بھرتی ہوئے تھے انہوں نے اس کیس پر توجہ مرکوز کی اور سنسنی خیز کہانی کو اپنے انجام تک پہنچایا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے ‘فووٹ پرنٹس آن دی سینڈ آف کرائم’ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے مشکل اور پیچیدہ مقدمات کی تفصیلات اور مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے تجربات درج کیے۔ اس میں رمن راگھ کی کہانی بھی شامل ہے۔
اپنی اس کتاب میں انہوں نے رامن راگھو کو پکڑنے سے لے کر تفتیش تک پوری کہانی تحریر کی ہے۔
سیریل کلر کو کیسے تلاش کیا گیا؟
رمن راگھو کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ سڑک پر رہتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے تھانے میں اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔
راماکانت کلکرنی نے ممبئی پولیس اسٹیشنوں کے پرانے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے دیکھا کہ ایک شخص کو دو سال قبل سڑک کے کنارے قتل کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔ اس بار بھی تفتیشی افسروں نے رمن راگھو پر مجرم ہونے کا شبہ کیا تھا جس کے تحت انھوں تفتیش کے نقطوں کو جوڑنا شروع کیا۔ رمن راگھو کو کئی ناموں سے جانا جاتا تھا لیکن ممبئی سے نکالے جانے کے بعد پولیس کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔
راماکانت کلکرنی بتاتے ہیں کہ رامن راگھو کی گرفتاری کا سہرا اس وقت کے نوجوان اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر نایلکس فیالہو کے سر جاتا ہے۔
فیہالو نے ایک کرائم میگزین میں اسی حوالے سے شائع مضمون میں بتایا کہ میری جیب میں اس سیریل کلر کی خیالی تصویر تھی، ایک دن جب میں کام پر جانے کے لیے بس سٹیشن پر انتظار کر رہا تھا، مجھے خاکی اور نیلے رنگ کا لباس پہنے ایک شخص ملا جو میری جیب میں موجود تصویر میں موجود شخص کے چہرے سے ملتا جلتا دکھتا تھا۔
فیہالو کا کہنا تھا کہ اس شخص نے ہاتھ میں گیلی چھتری پکڑی ہوئی تھی لیکن اس وقت جنوبی ممبئی کے علاقے میں بارش نہیں ہو رہی تھی۔ اس کی گیلی چھتری کی وجہ سے میرے شک کو تقویت ملی اور جب میں نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ وہ مالات سے آیا ہے جہاں دو دن قبل ہی چار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
میگزین مزید لکھا کہ جب اس کو پولیس اسٹیشن لے جا کر مزید تفتیش کی گئی تو اس کے پاس سے دھات کی ایسی انگوٹھی ملی جس کو درزی سوئی چبھنے سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں جب کہ مالات میں دو دن پہلے قتل ہونے والے چار افراد میں ایک درزی بھی شامل تھی اور تفتیش میں رامن نے بتایا کہ اس کے پاس دھاتی انگوٹھی اسی درزی کی تھی۔
رمن راگھو کو 27 اگست 1968 کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد مقدمہ درج کرنے سے اس کے اعتراف جرم، عدالتی سماعتوں، فیصلے اور ہائی کورٹ میں دوبارہ ٹرائل کے ساتھ ایک طویل اور پیچیدہ کہانی ہے۔
سیریل کلر کا منہ کھلوانا بڑا مسئلہ تھا وہ کسی طور پولیس کو کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ اسی دوران تفتیشی افسران نے اس سے غیر متوقع طور پر پوچھا کہ وہ کیا کھانا چاہتا ہے جس پر اس نے چکن کی فرمائش کی تو فوری طور پر چکن منگوا اور پکوا کر اسے پیش کیا گیا جب کہ اس کے بعد اس نے خوشبو دار تیل اور آئینہ مانگا وہ بھی اس کو دیا گیا۔ مرغی کھانے اور سر پر تیل سے مالش کرنے کے بعد آہستہ آہستہ اس نے اپنا منہ کھولنا شروع کیا اور ایسے عجیب وغریب دعوے کیے جس پر تفتیشی ٹیم حیران رہ گئی۔
وہ پولیس کے ساتھ گیا اور انہیں وہ جگہیں دکھائیں جہاں قتل ہوا تھا، وہ جگہ بھی جہاں قتل کے لیے استعمال ہونے والے آلات رکھے تھے اور قتل کی جگہ سے اٹھائی گئی کچھ چیزیں دکھائیں۔ اس نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے بھی یہی بیان دینے کا وعدہ کیا۔
ماتحت عدالت میں کیس چلا جہاں عدالت میں اس نے وہ رویہ اختیار کیا جیسے وہ ذہنی مریض ہو لیکن عدالت نے اس کے بیانات سننے کے بعد اسے ذہنی مریض ماننے سے انکار کر دیا اور سزائے موت سنا دی لیکن چونکہ سزائے موت براہ راست نہیں دی جا سکتی اس لیے اس کے کیس کو ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا۔
ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق نفسیاتی ماہرین کی ٹیم نے اس کا معائنہ کیا اور اسے دائمی پیرا نائیڈ شیزو فرینیا کا مریض قرار دیا جس کے بعد عدالتنے 4 اگست 1987 کو اس کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مجرم کہتا ہے کہ اسے بھگوان نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے کسی خیالی دنیا میں رہتے ہوئے یہ حرکتیں کی ہیں اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
اس سفاک نفسیاتی سیریل کلر کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پونے کی یرودا جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں اس کا اپریل 1995 میں گردے فیل ہونے کے باعث انتقال ہوگیا۔
انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق ماہر نفسیات آنند بھٹکر نے رمن راگھو سے کئی بار بات کی جب وہ 70 کی دہائی میں جیل میں تھے۔ ماہر نفسیات بھٹکر کی پیشین گوئی کے مطابق طویل ذہنی بیماری نے رمن راگھو کو قاتل بنا دیا۔