برگد کے گھنے پیڑ کے سایے میں وسیع و عریض احاطہ ہے، درخت پر بے شمار پرندوں نے گھر کر رکھا ہے جن کی چہکاریں لوگوں کا استقبال کرتی ہیں۔
وہاں آنے والے احتیاط سے ننگے پاؤں سیڑھیاں اترتے ہیں اور دعائیہ کلمات پڑھتے ہوئے اندر کی طرف چلے جاتے ہیں، اگر بتیوں کی دھیمی خوشبو سے پورا ماحول مہک رہا ہے۔
قریب سے گھنٹی کی مدھر آواز سنائی دیتی ہے، درخت پر بیٹھے پرندے چونک کر اڑتے ہیں اور ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور چہچہاہٹ کا شور مزید بلند ہوتا ہے۔ دن کی زرد روشنی دیواروں سے پھسلتی جاتی ہے، چمکتا سورج مدھم ہو کر بالآخر ڈھل جاتا ہے اور شام کی سرمئی چادر مندر کی دیواروں پر بچھ جاتی ہے، مندر، جہاں بے شمار افسانے ہیں، روایات ہیں اور عیقدت مندوں کی عقیدت ہے۔
کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع شری رتنیشور مہا دیو مندر (جسے شیو مندر بھی کہا جاتا ہے) ہندو عقیدت مندوں کے لیے ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے، اس کی قدامت تو زیادہ سے زیادہ 500 برس ہے، تاہم اس ذرا سے عرصے کو زیب داستان کے لیے 5 ہزار سال پر محیط کردیا گیا ہے۔
جب اس مندر کو ہزاروں سال قدیم قرار دیا جاتا ہے، تو اس سے جڑی نہایت دلچسپ روایات اور داستانیں جنم لیتی ہیں اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہیں۔
پہاڑیوں کے درمیان غار کے اندر بنا ہوا یہ مندر کبھی سطح سمندر سے 40 فٹ نیچے تھا اور اس کی 4 سطحیں یا زیر زمین منزلیں تھیں (بعض جگہوں پر 6 منزلیں بتائی گئی ہیں)، ہر منزل سے راستے مختلف سمتوں کی طرف جاتے ہیں۔
مندر کے اندر موجود برگد کا گھنا درخت بھی مندر ہی کی عمر کا ہے جس کی شاخوں نے پورے مندر پر سایہ سا تان رکھا ہے۔
جیسے جیسے مندر کی نچلی منزلوں پر اترتے جائیں، دیواروں اور چھتوں سے غار کی ساخت نمایاں ہوتی جاتی ہے، مٹی اور پتھر کی غیر ہموار چھت کو جوں کا توں رکھتے ہوئے مندر کے اندر خاصی تعمیرات کی گئی ہیں جہاں عقیدت مندوں کا رش رہتا ہے۔
شیو بھگوان ۔ جو سمندر پر نگران ہے
ہندو مذہب میں شیو بھگوان سب سے بڑے اور عظیم بھگوان ہیں، ہندو عقائد میں انہیں وقت کو قابو کرنے والا کہا جاتا ہے جو نہ صرف وقت کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں بلکہ اس الٹ پھیر کو اپنی مرضی سے بدلنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔
مذہبی عقائد کے مطابق شیو بھگوان تباہی کے خدا بھی ہیں، دنیا کے خاتمے کے مقررہ وقت پر شیو بھگوان ہی دنیا کو تہس نہس کریں گے۔
ہندو عقائد کے مطابق یہ مندر کئی صدیوں تک شیو بھگوان کا ٹھکانہ رہا، کئی صدیوں بعد شیو جی یہاں سے چلے گئے، لیکن اب بھی اکثر وہ مندر میں سانپ کی شکل میں آتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شیو بھگوان تیسری آنکھ رکھتے ہیں جسے باطن کی آنکھ کہا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے بے لگام گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس وقت سے آگے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔
آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کا مزار شہر کراچی میں موجود ہے اور شہر والے اسے اپنے لیے باعث رحمت جانتے ہیں کہ یہ غازی بابا ہی ہیں جو بپھرے سمندر اور منہ زور طوفانوں کو روک کر اس شہر کو تباہی سے بچا لیتے ہیں۔
ہندو عقیدت مند اسے شیوا کی کرامت قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شیوا کی تیسری آنکھ سمندر کی طرف نگران ہے جو طوفانوں کو اس طرف آنے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہے۔
اب یہ غازی بابا کا جاہ و جلال ہو، شیو بھگوان کی برکت ہو، یا کوئی اور سائنسی توجیہہ، اس شہر کے رہنے والے طوفانوں کو اپنی طرف بڑھتا تو دیکھتے ہیں، لیکن وہ طوفان ہمیشہ کراچی کے قدموں میں پہنچ کر دم توڑ دیتا ہے۔
ہندو مت میں سوموار یعنی پیر کے دن کو شیو کا دن قرار دیا جاتا ہے اور اس دن شیو جی کی خاص پوجا کی جاتی ہے۔
مہا بھارت میں ذکر
کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے قدیم ترین داستانی صحیفے مہابھارت میں بھی اس مندر کا ذکر ہے، مہا بھارت ایک طویل منظوم داستان ہے جسے ہندو مت کی مذہبی کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔
اس صحیفے میں اس مندر کو شیو بھگوان کا گھر لکھا گیا ہے۔
ہندو عقائد کے مطابق مہا بھارت کو تیسری صدی قبل مسیح سے لکھنا شروع کیا گیا، اس میں بیان کیے گئے واقعات آٹھویں سے نویں صدی قبل مسیح میں رونما ہوئے۔ اس کے اختتامی کلمات چوتھی صدی عیسوی میں لکھے گئے جب اس خطے میں چندر گپت موریہ کا خاندان حکمران تھا۔
مہا بھارت میں لگ بھگ 1 لاکھ اشعار ہیں اور اس میں لکھے گئے الفاظ کی تعداد 18 سے 25 لاکھ کے درمیان ہے۔
رام اور سیتا کا قیام
ہندو مذہب میں ایک بہادر راج کمار رام چندر کو وشنو بھگوان کا ساتواں روپ (اوتار) مانا جاتا ہے، وشنو بھگوان کے 10 روپ ہیں جن میں سے 9 زمین پر آچکے، دسواں آنا باقی ہے۔ اس حوالے سے ہندو مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کی طرح ان کا بھی ایک بھگوان ظاہر ہوگا۔
رام چندر کی بیوی سیتا خود بھی ایک شہزادی تھی اور نہایت خوبصورت تھی۔ ان دونوں کی محبت آج بھی مثال کا درجہ رکھتی ہے۔
ہندو صحیفوں کے مطابق لنکا کا شیطان صفت راجا راون، سیتا کی خوبصورتی کا دیوانہ ہو کر اسے اٹھا کر لے آیا اور اپنے پاس قید کرلیا۔ رام نے بندر راجہ ہنومان کی مدد سے راون کو شکست دی اور سیتا کو چھڑا کر واپس اپنی سلطنت پہنچا۔
اس موقع پر لوگوں نے ان کی واپسی کا جشن منایا اور جابجا دیے جلا کر شہر کو روشن کردیا۔ یہ موقع آج دیوالی یا دیپاوالی کے نام سے منایا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رام اور سیتا ایک بار اس شیو مندر میں بھی آئے تھے، ایک رات یہاں قیام کیا اور پوجا کی۔
محقق اور تاریخ دان گل حسن کلمتی کراچی کے مندروں سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ رام اور سیتا نے ہنگلاج ماتا کے مندر (ضلع لسبیلہ، بلوچستان) جانے کے سفر میں، درمیان میں کراچی میں مختصر قیام کیا تھا۔ وہ جس جگہ پر ٹھہرے تھے اسے رام باغ کہا جانے لگا، بعد میں اس کا نام آرام باغ کردیا گیا۔
غالباً اسی مختصر قیام کے دوران شیو مندر میں بھی قیام کیا گیا۔
بابا گرو نانک کی مراقبہ گاہ
اس مندر کو سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک سے بھی منسوب کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ الگ تھلگ غار ہونے کی وجہ سے گرو نانک بھی یہاں آیا کرتے اور مراقبہ کیا کرتے۔
مندر کے اندر موجود چشمہ
شیو مندر کے اندر ایک چشمہ بھی موجود ہے اور مشہور ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سے پھوٹنے والا چشمہ، اور مندر کا چشمہ ایک ہی ہے۔
لیکن کیا یہ مندر واقعی 5 ہزار سال پرانا ہے؟
آل پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سیکریٹری روی ڈاوانی مندر کی تاریخ کے حوالے سے منطقی بنیادوں پر بات کرتے ہیں۔
روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ 5 ہزار سال کا عرصہ خاصا طویل ہے، اتنے طویل عرصے تک کسی عمارت کا اس طرح قائم رہنا کہ وہ آج بھی زیر استعمال رہے، ناممکن سا لگتا ہے۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے روی ڈاوانی نے بتایا کہ سنہ 2014 میں جب کلفٹن انڈر پاس تعمیر ہو رہا تھا تو ہیوی مشینری کے استعمال سے مندر کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں اور اس کے منہدم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
’تب ہم نے بڑے پیمانے پر اس معاملے پر آواز اٹھائی اور عدالت بھی گئے، ہمارا مطالبہ تھا کہ اس تاریخی مندر کو نقصان پہنچنے سے بچایا جائے۔ اس وقت دنیا بھر کی ہندو کمیونٹی ہماری ہم آواز ہوگئی اور سب نے اس تاریخی مندر کی حفاظت کے لیے زور ڈالا‘۔
روی ڈاوانی بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر سے ہمیں اس مندر کی تاریخ کے حوالے سے دستاویزات اور کتابیں موصول ہوئیں، ان تمام دستاویزات میں مندر کو 200 سے 500 سال قدیم لکھا گیا ہے، لیکن کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ یہ مندر 5 ہزار سال قدیم ہے۔
کراچی کے اس مندر کے حوالے سے معروف مصنف اور محقق اقبال اے رحمٰن مانڈویا نے بھی اپنی کتاب اس دشت میں اک شہر تھا میں لکھا ہے، کہ یہ مندر 5 ہزار سال نہیں بلکہ 200 سال پرانا ہے، 5 ہزار سال بہت بڑا عرصہ ہے اور اس عرصے میں موسمی حالات کی وجہ سے تعمیرات میں ٹوٹنے پھوٹنے اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
روی ڈاوانی کہتے ہیں کہ، چونکہ مندر کی مصدقہ تاریخ معلوم ہوچکی تو اس سے جڑی روایات محض داستانیں ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔
روی ڈاوانی مندر میں موجود چشمے کے حوالے سے بھی بتاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عام افراد کا ماننا ہے کہ غازی بابا کی درگاہ اور مندر میں موجود چشمہ ایک ہی ہے، تاہم بظاہر ایسا لگتا نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ درگاہ اور مندر کے درمیانی راستے پر ایک مسجد موجود ہے، اگر ایسا ہوتا تو اس مسجد میں بھی اس چشمے کو ہونا چاہیئے تھا، لیکن وہاں چشمہ موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی پانی کے لیے بورنگ کی جاتی ہے تو خاصی نیچے تک کھدائی کرنی پڑتی ہے تب جا کر پانی نکلتا ہے، چنانچہ ہم اس بارے میں لاعلم ہیں کہ یہ چشمہ کہاں سے اور کیسے نکلتا ہے۔
روی ڈاوانی یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہاڑ کے اندر جب کوئی غار بنتا ہے تو اس میں نیچے سخت پتھر اور اوپر مٹی ہوتی ہے، لیکن اس غار میں مٹی نیچے ہے اور اس کے اوپر سخت پتھر ہے، اس مٹی پر یہ غار کس طرح قائم ہے یہ بھی حیران کن اور کسی معجزے سے کم نہیں۔
وہ کہتے ہیں اس طرح کے مذہبی مقامات جو فطرت کے درمیان قدرتی طور پر بن گئے ہوں دنیا میں چند ایک ہی ہیں اور یہ شیو مندر بھی ان میں شامل ہے۔
روی ڈاوانی کا کہنا ہے کہ جس طرح سکھوں کے لیے کرتارپور گردوارہ نہایت اہم مذہبی اہمیت کا حامل ہے، بالکل ویسے ہی یہ تاریخی مندر بھی ہندوؤں کے لیے بے حد اہم ہے۔ اگر مناسب انتظامات اور سہولیات فراہم کی جائیں تو دنیا بھر سے عقیدت مند یہاں آئیں گے اور یہاں منائے جانے والے مذہبی تہوار، معاشی اور سیاحتی حوالے سے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
حوالہ جات:
قدیم سندھ ۔ بھیرو مل مہرچند آڈوانی
Historic Temples in Pakistan: A Call to Conscience – Reema Abbasi and Madiha Aijaz