ایک لکڑہارے کا بادشاہ بن جانا اور اپنے دور کی بڑی مضبوط اور نہایت منظّم فوج تیار کرکے خطّے میں فتوحات حاصل کرنا حیرت انگیز اور قابلِ ذکر تو ہیں، مگر ہندوستان کی تاریخ میں اس کا نام قتل غارت گری اور تباہی کے لیے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ قصّہ ہے مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر مشرق میں دلّی تک بڑی فوجی مہمات سَر کرنے والے ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار کا۔
مؤرخ اور مائیکل ایکسوردی (Michael Axworthy) نادر شاہ سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں لکھتے ہیں، ’نادر شاہ نے ایران کو افغانوں کے قبضے سے نکالا، عثمانی ترکوں کو ایران سے بے دخل کیا، روسیوں سے اپنے علاقے خالی کروائے، عثمانی سلطنت کے زیرِ تسلط علاقوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں شکست دے کر ایران کا بادشاہ بنے۔ افغانوں پر ان کے علاقوں میں گھس کر حملہ کیا اور وہ علاقے دوبارہ فتح کیے، پھر انڈیا پر حملہ کر کے دلّی کو فتح کیا۔ وسطی ایشیا میں داخل ہو کر ترکمان اور ازبکوں کو قابو کیا۔‘
ایران کا بادشاہ نادر شاہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ عہد کے مشہور شہر دلّی کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے تختِ طاؤس اور کوہِ نور بھی لے گیا۔ اسے ایشیا کا نپولین اور سکندرِ ثانی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین کے مطابق بہت کم عرصہ میں مغرب میں سلطنتِ عثمانیہ میں شامل عراق اور شام کے علاقوں سے لے کر ہندوستان تک متعدد مہمات نادر شاہ کو ایک بہترین اور باتدبیر فوجی کمانڈر ثابت کرتی ہیں۔ لیکن وہ مضبوط اور مستحکم حکومت چھوڑ کر دنیا سے نہیں گیا۔ 19 جون 1747ء کو نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔
نادر شاہ کا تعلق کسی شاہی گھرانے یا نوابی خاندان سے نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ نوعمری میں لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تاکہ گزر بسر کرسکے۔ بعض کتابوں میں اسے گڈریا لکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی سلطنت کے دارالحکومت سے دور ایک سرحدی علاقے میں پیدا ہوا۔ نادر شاہ باصلاحیت تھا، جس کے والد کا سایہ جلد اس کے سَر سے اٹھ گیا۔ اس کے باوجود صرف تیس برس کی عمر میں نادر شاہ تاج و تخت سنبھالنے کے ساتھ ایک طاقت ور اور منظّم فوج کا سالار بن چکا تھا۔
نادر شاہ کی تاریخ و سنہ پیدائش پر مؤرخین میں کچھ اختلاف ہے، لیکن ایکسوردی کے مطابق یہ 1698 کا زمانہ تھا جب نادر شاہ درّہ غاز کے خطّے میں دستگرد نامی گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کی مادری زبان ترکی تھی لیکن قیاس ہے کہ جلد ہی نادر شاہ نے فارسی بھی سیکھ لی ہو گی۔ یہ علاقہ خراسان کے دارالحکومت مشہد سے شمال میں تھا۔
نادر شاہ کے نام کے ساتھ اکثر افشار لکھا جاتا ہے جس کی وجہ والد کا ترکمانوں کے افشر قبیلے کے جانوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال ہے۔ انھیں ایک چرواہا لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ ایک باعزّت اور لائقِ اعتبار شخص تھے۔ اسی بنیاد پر بعض مؤرخین کے مطابق انھیں اپنے گاؤں کا سرپرست بنا دیا گیا تھا۔ نادر شاہ ایک دہری ثقافت میں پروان چڑھا۔ وہ ایرانی سلطنت میں ترکی زبان بولنے والا شہری تھا جس نے بعد میں فارسی ثقافت کو بھی سمجھا اور بڑا مقام و مرتبہ پایا۔
نادر شاہ نے دس سال کی عمر میں گھڑ سواری اور شکار کرنا سیکھا۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں ماہر تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے غربت دیکھی مگر پھر نادر شاہ پر قسمت نے یاوری کی اور وہ ایک بااثر حکم راں اور فاتح بنا۔
اگرچہ نادر شاہ ہندوستان میں ایک ظالم اور نہایت خود سر حکم راں مشہور ہے، لیکن مؤرخ مائیکل ایکسوردی اس کی زندگی کا ایک جذباتی پہلو سامنے لاتے ہیں۔ ان کے مطابق بادشاہ بننے کے بعد اس نے اپنی غربت کے دنوں کے ایک ساتھی کو نوازتے ہوئے تلقین کی کہ ’مغرور مت ہو جانا، اپنا خچر اور وہ لکڑیاں چننا یاد رکھنا۔‘ اسی طرح جب نادر شاہ دلّی تاراج کرنے کے بعد سندھ کے راستے لوٹ رہا تھا تو ایک مقام پر اپنے ساتھیوں سے جذباتی انداز میں مخاطب ہوا اور کہا کہ کسی کو حقیر مت جانو، کیوں کہ ہمّت اور حوصلے سے کام لے کر کوئی بھی بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق نادر شاہ پندرہ سال کی عمر سے ایک مقامی سردار اور ابیورد شہر کے گورنر بابا علی بیگ کی سرپرستی میں رہا۔ بابا علی بیگ خراسان کے افشروں میں اہم سردار تھا۔ یہیں اس نے ایک تمنچی کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ سردار کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یہیں سے نادر شاہ ایک فوج تیّار کرنے میں کام یاب ہوا اور آنے والے برسوں میں فاتح بن کر ابھرا۔ نادر شاہ کے ایک فوجی کمانڈر سے حکم ران بننے کی کہانی کئی موڑ لیتی ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ اب ہم نادر شاہ کی دلّی آمد کا احوال رقم کرتے ہیں۔
نادر شاہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کر کے کرنال کے مقام تک پہنچا جو دلّی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔ مغلیہ سلطنت اس وقت اندرونی خلفشار اور شدید بدانتظامی کا شکار تھی اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے بادشاہ محمد شاہ رنگیلا اس آندھی کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ نتیجتاً نادر شاہ کی فوج اور اس کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوجی بھون ڈالے، مگر خود ایرانی فوج کا بہت کم جانی نقصان ہوا۔ کرنال کی جنگ جیت کر نادر شاہ 1739 میں دلّی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا۔ نادر شاہ یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے بجائے بہت سا مال و زر سمیٹ کر رخصت ہوگیا تھا۔
دلّی میں قتلِ عام کی داستان کو نامی گرامی مؤرخین اور اہلِ قلم نے تصانیف میں شامل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ نادر شاہ کی فوج پر دلّی کی گلیوں میں حملوں کے بعد شروع ہوا۔ نادر شاہ نے فوج کو اپنی ہیبت اور دھاک بٹھانے کے لیے قتلِ عام کا حکم دیا، اور پھر بڑی خوں ریزی اور لوٹ مار ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس وقت 30 ہزار ہندوستانی جن میں سپاہی، امراء اور شہری شامل تھے، جان سے گئے۔ دوسری طرف مغل بادشاہ نے نادر شاہ کو دلّی سے رخصت کرتے ہوئے سونا اور چاندی اور دریائے سندھ کے مغرب میں اپنی کئی جاگیریں بھی نذر کیں۔ اسے کوہ نور، دریائے نور اور تاج ماہ نامی ہیرے بھی تحفتاً پیش کیے گئے۔
نادر شاہ کی مغل دربار میں آمد اور بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کا احوال مرزا مہدی نے اپنی تصنیف ’تاریخِ نادری‘ میں کچھ یوں لکھا ہے۔ ’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سَر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘
مصنّف نے اسی کتاب میں دلّی سے نادر شاہ کی رخصتی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا ہے، ’نادر نے سَر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا۔‘
1745 میں نادر شاہ نے ترکوں کی فوج کو شکست دی تھی جسے مؤرخین اس کی آخری شان دار فتح لکھتے ہیں۔ وہ مسلسل فوجی مہمّات اور شورش کے خلاف کمربستہ رہنے کی وجہ سے تھک چکا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چڑچڑا، شکی اور بدمزاج ہوتا گیا۔ اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو بھی اندھا کروا دیا تھا۔ اسے شک تھا کہ رضا قلی اس کے اقتدار کے خلاف سازش کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ مال و دولت کی ہوس میں گرفتار ہوگیا تھا۔ اسی دور میں ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں اور نادر شاہ کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ اگر نادر شاہ نہ ہوتا تو شاید آج ایران بھی نہ ہوتا۔ بلکہ وہ ’افغانوں، روسیوں اور عثمانیوں میں تقسیم ہو جاتا۔‘ غربت کی دلدل سے نکل کر ایرانی سلطنت کا اقتدار سنبھالنے والے نادر شاہ کو محافظ دستے کے چند سپاہیوں نے قتل کر دیا تھا۔