بدھ, جولائی 2, 2025
اشتہار

یادِ رفتگاں:‌ نجم الغنی خاں نجمی

اشتہار

حیرت انگیز

آج محمد نجمُ الغنی خاں کا نام اب صرف ادبی تذکروں‌ میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ نئی نسل کے لیے وہ ایک نامانوس شخصیت بھی ہیں‌ اور شاید ہی کسی نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، لیکن یادِ رفتگاں‌ کے ذیل میں اس نادرِ روزگار شخصیت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ نجم الغنی خان یکم جولائی 1941ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے ممتاز محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر بھی تھے۔

ان کی وجہِ شہرت علمی و ادبی کام ہی نہیں بلکہ وہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا جاتا ہے۔ نجمی ان کا تخلّص تھا اور تعلق رام پور سے تھا جس کے سبب وہ اپنے نام کے آگے رام پوری بھی لکھتے تھے۔

مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں نجم الغنی خاں‌ کو شروع ہی سے وہ ماحول ملا جس میں وہ مطالعہ کے عادی بنے اور پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

نجم الغنی خان کے والد جب رام پور سے نکلے اور ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو وہیں اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ 23 برس کی عمر میں‌ نجم الغنی خاں اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کی غرض سے رام پور منتقل ہوگئے۔ وہاں مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا اور 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ کیا۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں بہت سا علمی و ادبی کام کیا۔

محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ انھیں تاریخ سے خاص شغف تھا۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ پر مبنی کتب تحریر کیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتابوں اور مختصر رسالوں کے ساتھ علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کی شاعری بھی دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

علم و ادب کے علاوہ نجم الغنی خان نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اپنائے رکھا اور اس میدان میں‌ اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں یکجا کیا تاکہ اس پیشے کو اپنانے والے استفادہ کرسکیں۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

نجم الغنی خاں نجمی کی علمی و تاریخی موضوعات پر مبنی کتابوں میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض) اور مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں