پیر, اپریل 14, 2025
اشتہار

بھارتی قصبہ، جہاں‌ اب صرف ایک مسلمان رہ گیا ہے

اشتہار

حیرت انگیز

بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے قصبے نندا نگر میں‌ اب صرف ایک مسلمان رہ گیا ہے، جس نے ہندوؤں کے ہر قسم کے تشدد اور قتل و غارت گری کے آگے ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نندا نگر شمالی ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کے دور دراز ہمالیائی قصبے کا نام ہے، جہاں ہر صبح 8 بجے، 49 سالہ احمد حسن دریائے نندکینی کے کنارے اپنی ڈرائی کلیننگ کی دکان کا براؤن شٹر اٹھاتے ہیں، لیکن ان کا سارا دن گاہکوں کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔

ستمبر 2024 تک سب کچھ ٹھیک تھا، دوپہر کے کھانے کے وقت تک ان کے پاس 20 سے 25 کے درمیان گاہک آتے جو اپنی شیروانی، سوٹ، کوٹ، پتلون اور موسم سرما کے لباس دھلنے کے لیے چھوڑ جاتے، زیادہ تر گاہک ہندو تھے، چند مسلمان، جن کے ساتھ ہنسی مذاق چلتا رہتا۔ لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد حسن اس قصبے کا آخری مسلمان شخص ہے!

نندا نگر میں نسلوں سے 15 مسلم خاندان آباد تھے، احمد حسن کی پیدائش اور پرورش یہیں پر ہوئی، جہاں ان کے خاندان کو ہندو تہواروں کے لیے دعوتیں موصول ہوئیں اور عید پر خود انھوں نے پڑوسیوں کی میزبانی کی، انھوں نے ہندو جنازوں کے لیے لکڑیاں اکٹھی کیں اور اپنے ہندو دوستوں کی لاشوں کو کندھا دیا۔


وقف بل کے باعث بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا، پورا بھارت بند کرنے کی دھمکی


تاہم، گزشتہ ستمبر میں ایک ہندو لڑکی نے مسلمان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا، اور س کے بعد یہاں مسلم مخالف تشدد نے جنم لے لیا، پہلے مظاہرے ہوئے اور پھر حملے شروع ہو گئے، مسلمانوں کی دکانیں تباہ کر دی گئیں، جب کہ مسلم خاندان جانوں کے خوف سے راتوں رات بھاگ گئے۔

لیکن احمد حسن یہ سہہ نہیں پایا اور اپنی بیوی، 2 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کے ساتھ واپس آ گیا، اب یہاں اس کے گھر والے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں جب کہ حسن کی دکان پر دن بھر 5 سے بھی کم ہندو گاہک آتے ہیں۔

ان کے ہندو پڑوسی ان سے بات نہیں کرتے، وہ اب دریا کے کنارے چہل قدمی کے لیے نہیں جاتے، جیسا کہ وہ ہر شام جاتے تھے، وہ اپنے بچوں اور بیوی کو کسی سے ملنے نہیں دیتے۔ حسن نے کہا ’’میں اب اپنی دکان پر جاتا ہوں اور گھر واپس آتا ہوں۔ اب یہی ہماری زندگی ہے، اپنی پوری زندگی اس شہر میں گزارنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئی بھوت ہوں۔‘‘

واضح رہے کہ نندا نگر ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی سے 10 گھنٹے کی مسافت پر ہے، اور بھارت-چین سرحد کے قریب واقع ہے، اس کی آبادی تقریباً 2,000 افراد پر مشتمل ہے، حسن کے دادا 1975 میں پڑوسی ریاست اتر پردیش کے ضلع بجنور کے ایک قصبے نجیب آباد سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے، اور ایک سال بعد ہی احمد حسن پیدا ہوا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں