کراچی : ملیرپولیس کےہاتھوں مبینہ مقابلےمیں مارےگئےنوجوان نقیب محسودکے اہلخانہ آج سخت سیکیورٹی میں کراچی پہنچیں گے، نقیب کے ورثاسابق ایس ایس پی ملیرراؤانوار اور مبینہ مقابلے میں شریک پولیس پارٹی کے خلاف مقدمےمیں مدعی بنیں گے۔
تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ کے اہلخانہ ٹانک سے کراچی کیلئے روانہ ہوئے اور آج دوپہر دو بجے ڈیرہ اسماعیل خان سے کراچی پہنچیں گے، نقیب کے اہلخانہ کو کے پی کے پولیس کی جانب سے سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے جبکہ وہاں سے سندھ پولیس ٹیم کراچی پہنچائے گی۔
نقیب کے اہل خانہ راؤ انوار کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے جبکہ نقیب محسود کے والد،بھائی اوردیگررشتہ دارمبینہ مقابلے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کو اپنا بیان بھی ریکارڈکرائیں گے۔
نقیب کے کزن نوررحمان کا کہنا ہے کہ مبینہ مقابلے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے رابطہ کیا تھا، ثنااللہ عباسی نےسیکیورٹی دینے کی یقین دہائی کرائی ہے۔
نوررحمان نے مزید کہا کہ وہ کراچی آ کر کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔
خیال رہے کہ سی ٹی ڈی سندھ حکام نے اہلخانہ کو کراچی لانے کی درخواست کی تھی۔
مزید پڑھیں : سیکیورٹی کے مسائل ہیں‘ راؤ انوار کے خلا ف مقدمہ درج کرائیں گے: اہلِ خانہ نقیب
دوسری جانب کراچی میں موجودمحسودقبائل نےنقیب کے اہلخانہ کی کراچی آمد کے حوالے سے اقدامات شروع کردیئے ہیں، جرگے نےنقیب اللہ کے والد کے استقبال کیلئے سہراب گوٹھ پر تعزیتی کیمپ لگایا، تحقیقاتی ٹیمیں اور سرکاری افسران نقیب کے اہلخانہ سے تعزیتی کیمپ پر ملاقات کرسکیں گے۔
گذشتہ روز کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں محسود قبائل کا جرگہ ہوا ، جس میں نقیب کے اہلخانہ کی رہائش اور دیگر معاملات پر غور کیاگیا، جرگے میں فیصلہ کیا گیا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ کی رہائش اور وکلاء کے تمام اخراجات محسود برادری برداشت کرے گی۔
جرگےمیں فیصلہ کیا گیا تھا کہ معطل ایس ایس پی ملیرراؤانوارکیخلاف مقدمہ درج کرائینگے، مقدمہ اہلخانہ درج کرائیں گے، جرگے کیجانب سے سہراب گوٹھ پرکیمپ لگایا جائے گا، جو سیاسی رہنما اہلخانہ سے ملنا چاہے وہ کیمپ پر آئے گا، تحقیقاتی کمیٹی کو بھی کیمپ پر آنے کا کہا گیا ہے، نقیب کےاہلخانہ غریب ہیں،رہائش،کھانےکاانتظام کرینگے۔
واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
نوجوان کی مبینہ ہلاکت کو سوشل میڈیا پر شور اٹھا اور مظاہرے شرو ہوئے تھے بلاول بھٹو نے وزیرداخلہ سندھ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے ایس ایس پی ملیر سے انکوائری کی اور عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
نقیب اللہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ مقتول کی الاآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی، تین جنوری کو سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکار اسے لے کر گئے اور تیرہ جنوری کو ایدھی سینٹر سہراب گوٹھ سے اس کی لاش ملی۔