کراچی : انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے اہم گواہ کو آئندہ سماعت پر ہر صورت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت،شعیب شوٹر،گداحسین،صداقت حسین،ریاض احمد ،راجہ شمیم، محسن عباس کو پیش کیا گیا۔
عدالت نے گواہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو پیش کرنے کے لئے آخری موقع دے دیا ، تفتیشی افسر ڈی ایس پی غلام مرتضیٰ نےایس ایس پی رضوان کی طبیعت خرابی کی رپورٹ جمع کرادی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ گواہ ایس ایس پی ڈاکٹررضوان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، بیماری کے باعث ایس ایس پی رضوان اپنا بیان ریکارڈ کرانے سے قاصر ہیں۔
تفتیشی افسر نے استدعا کی ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو پیش کرنے کے لئے مہلت دی جائے، جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہ ہر صورت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس کا اہم گواہ اور عینی شاہد اپنے بیان سے منحرف ہوگیا
عدالت نے جیل حکام کو گرفتار تمام ملزمان کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 جولائی تک ملتوی کردی۔
گذشہ سال نقیب اللہ قتل کیس کا اہم گواہ اور عینی شاہد اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، گواہ ہیڈ کانسٹیبل راجا جہانگیرنے7ملزمان کوشناخت کرنے سے انکار کردیا، امان اللہ مروت اور شعیب شوٹرسمیت 7 ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کیا تھا۔
گواہ راجاجہانگیر نے بیان میں کہا تھا مجھ سے زبردستی بیان لیا گیا تھا، اعلیٰ حکام کے دباؤ پر پولیس کے تحریری بیان پر دستخط کیےتھے۔
خیال رہے جنوری 2019 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ کیا تھا، ٹیم کا مؤقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔
نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا تھا، بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا تھا۔