تازہ ترین

ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور برجستگی نمایاں‌ ہے۔ اس کے ساتھ اردو غزل کو ناصر نے اپنے احساسِ تحیّر سے وہ انفرادیت بخشی جو انھیں‌ آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

یہ ناصر کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور وہ کسک نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر پہچانے گئے۔ انھوں نے اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں، سرشاری اور حسرتوں کو بڑی شدّت سے اپنے اشعار میں‌ سمویا۔ روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ناصر کاظمی نے جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔

ناصر کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ آزادی سے قبل وہ ایک بڑے گھر میں‌ نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے چھوٹے سے معمولی گھر میں‌ نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔

ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -