اسلام آباد : قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مصطفی عامر قتل کیس کے معاملے پر ایف آئی اے اور اے این ایف کو تحقیقات کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا ، جس میں کمیٹی نے مصطفی عامر قتل کیس میں ایف آئی اے سائبر کرائم کو آج ہی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔
ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سندھ نے کہا ہمیں ایجنڈا تاخیر سے ملا ہے، آج بریفنگ نہیں دے سکتے، جس پر آغا رفیع اللہ کا کہنا تھا اس معاملے میں ایف آئی اے کو فوری ٹیک اپ کر دینا چائیے، ملزم نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی مگر ملزم کو پھر بھی فیور دی گئی۔
جس پر نبیل گبول نے کہا آئی جی سندھ خود بھی نہیں آئے اور نہ ہی کوئی نمائندہ آیا ہے جبکہ عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ یہ بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ معاملہ سندھ پولیس کا مسئلہ ہے وہ جانے، وہاں کرپٹو کرنسی کا دھندہ بھی ہوتا تھا، یہ معاملہ ایف آئی اے سے منسلک ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ منشیات کا بھی دھندہ۔ ڈارک ویب سے خریداری وفاقی اداروں کی ناکامی ہے، اغوا اور قتل کا معاملہ صوبوں کی حد تک بنتا ہے، باقی تمام جرائم کے حوالے ایف آئی اے کہاں ہے۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے وقار الدین سید نے کہا یہ کیس ابھی سندھ پولیس کے پاس ہے، جیسے ہی یہ کیس ہمیں منتقل ہو گا، مکمل تعاون ہو گا۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ آئندہ اجلاس میں دونوں ادارے کمیٹی کو بریفنگ دیں اور آئندہ اجلاس میں آئی جی سندھ کو ہر صورت پیش ہونے کا کہا جائے۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا یہ ممکن نہیں کہ ایک نوجوان یہ اکیلا کام کر رہا ہے، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا اس سارے کام کے پیچھے بڑا نیٹ ورک نظر آتا ہے۔
آغا رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ پانچ سو سے زائد لیپ ٹاپس وہاں پر تھے، کئی پولیس افسروں کے بزنس معاہدے بھی سامنے آرہے ہیں۔
عبدالقادر پٹیل نے بتایا کہ اس کاروبار سے منسلک کچھ لوگ بیرون ملک بھاگ چکے ہیں جبکہ نبیل گبول کا کہنا تھا کہ مزید لوگ بھی بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس پر ایڈیشنل سیکرٹری سندھ نے کہا اس کیس میں جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے۔