اشتہار

این ایم خان رپورٹ اور نیفڈیک

اشتہار

حیرت انگیز

1970ء کی دہائی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کے نام سے ایک ادارہ ملک میں‌ قائم ہوا جس کا مقصد پاکستان میں فلم کی ترویج اور انڈسٹری کو وسائل مہیا کرکے اسے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنا تھا، لیکن بوجوہ یہ ادارہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام ہوگیا۔

نیف ڈیک کا نام بالخصوص فن کاروں، شوبزنس اور فلم کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد جیسے ڈسٹری بیوٹر وغیرہ کے لیے ہرگز نیا نہیں اور دنیا بھر میں ایسے اداروں کی بدولت سرکاری خزانے اور فلم انڈسٹری کی آمدن جاری رہتی ہے۔ یہاں ہم یٰسین گوریجہ جیسے معروف فلمی مؤرخ اور مصنّف کی ایک تحریر (بی بی سی اردو) سے چند اقتباسات پیش کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

تین دہائی (اب پچاس برس) پہلے نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن یا نیفڈیک کا قیام پاکستان کی فلمی صنعت کو ان مشکلات سے نکالنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا جن سے وہ آج بھی دوچار ہے۔

- Advertisement -

نیفڈیک کا قیام کسی شخصی فیصلے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے پاکستان کی فلمی صنعت کی ترقی کی خواہش اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہونے والی منصوبہ بندی کارفرما تھی۔

انیس سو اٹھاون سے انیس سو انہتر کے ایوب خان دور میں پہلی بار محسوس کیا گیا کہ فلمی صنعت کو تقویت ملنی چاہیے۔ چنانچہ اس دور میں فلمی صنعت کی بہتری اور بہبود کے لیے ایک جامع رپورٹ تیار کی گئی جسے این ایم خان رپورٹ کہا جاتا ہے۔

بھٹو دور میں این ایم خان رپورٹ کی بنیاد پر فلم ترقیاتی کارپوریشن اور نیفڈیک کی بنیاد رکھی گئی۔ نیفڈیک کو چلانے کے لیے امریکی فلمسازوں کا ایوب دور میں منجمد شدہ سرمایہ استعمال کیا گیا۔

ساڑھے چار کروڑ روپے کی منجمد رقم نیفڈیک کو اس شرط پر واگزار کر دی گئی کہ اس رقم کا سود امریکی فلمسازوں کو واپس کیا جائے گا۔

نیفڈیک جو ملکی فلم انڈسٹری کی ترقی و بہبود کے لیے وجود میں لائی گئی تھی لیکن اسے ایک کاروباری ادارہ بنا دیا گیا اور اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی فزیبیلیٹی کے بغیر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دفاتر قائم کیے گئے اور وافر عملہ ملازم رکھ لیا گیا۔ نیفڈیک نے ابتدا میں ہی غلط بخشیاں شروع کر دی۔ مثلاً جمیل دہلوی کو لندن میں ’فائیو ریورز‘ کے نام سے لاکھوں روپے فنانس کر دیے گئے۔ اسی طرح اے جے کاردار کو ’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘ بنانے کے لیے خاصی رقم دے دی گئی اور دونوں فلمیں نامکمل رہیں اور تمام سرمایہ ڈوب گیا۔

اسی طرح ’خاک اور خون‘ کے نام سے ایک فلم مکمل کی گئی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ دو تین پاکستانی فلموں، موم کی گڑیا وغیرہ ڈسٹری بیوشن کے لیے حاصل کی گئیں جو ناکام ہو گئیں۔ اسی دور میں پرائیویٹ چینل پر انگریزی فلموں کی درآمد بند کر کے نیفڈیک نے امریکی فلموں کی تقسیم کا کام شروع کر دیا۔

اسلام آباد میں غیر آباد جگہ پر دو سنیما بنا لیے اور لاہور میں الفلاح سنیما ٹھیکے پر حاصل کر لیا گیا۔ اسی دور میں وہ تمام سرمایہ برباد کر دیا گیا جو امریکی فلمسازوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ نیفڈیک گھاٹے میں جانے لگی۔

ضیاءالحق کا دور آیا تو اس میں کچھ اصلاحات پر غور کیا گیا۔ فلمی صنعت کی بہتری کے لیے فلمسازوں کی رجسٹریشن اور نیشنل فلم ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ لیکن نیفڈیک کے حالات دن بدن بگڑتے چلے گئے۔ بے نظیر اور نواز شریف کے دونوں ادوار میں نیفڈیک کی اصلاح نہ ہو سکی۔ چنانچہ مشرف دور میں اسے مکمل طور پر بند کر دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس دور میں نیفڈیک کے چیئرمین میجر جنرل (ر) عنایت اللہ نیازی کی کوششوں سے فلم انڈسٹری میں بہتری کی کچھ صورت پیدا ہوئی۔ انہوں نے فلم ٹریڈ پر نافذ متعدد ٹیکس ختم کرا دیے۔ تفریحی ٹیکس کو فکس ٹیکس کی شکل دے دی گئی۔ لیکن دیکھا گیا کہ فلمی صنعت یا فلمسازوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔

یسین گوریجہ مزید لکھتے ہیں کہ نیفڈیک ختم کرنے کے بعد نئی حکومت نے اس کے اثاثے بائیس کروڑ میں فروخت کر دیے گئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں