لاہور: صوبہ پنجاب میں زیر زمین پانی سے متعلق ڈیٹا اور معلومات کی عدم دستیابی زرعی پیداوار میں کمی کا سبب بن رہی ہے جس کے حوالے سے ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے، زیر زمین پانی کے درست ڈیٹا کے حصول کے لیے مختلف منصوبوں پر بھی کام کیا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں پنجاب کے آبی وسائل کے حوالے سے مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ اس پروگرام میں سرکاری حکام، پالیسی سازوں اور تعلیمی اداروں کے ماہرین نے شرکت کی۔
پروگرام میں آبی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ماحول دوست اور پائیدار حل پر گفت و شنید کی گئی۔
آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر محسن حفیظ کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس سندھ طاس معاہدے کے لیے سطح پر موجود پانی کی معلومات ہیں لیکن زیر زمین پانی کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، معلومات کی عدم دستیابی زیر زمین پانی کو منظم کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل واٹر اکاؤنٹنگ فریم ورک کی تشکیل سے حکومت کو بھی آبی وسائل کے بارے میں حتمی معلومات موصول ہوں گی جس سے فیصلہ سازی کا عمل آسان ہوگا۔
یہ فریم ورک انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور WRAP کے تعاون سے تیار کیا جارہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں چکوال، رحیم یار خان اور شیخوپورہ میں ایڈی کوورینس فلکس ٹاورز کی تنصیب بھی کی جائے گی جس سے زراعت میں پانی کے استعمال اور کاربن اخراج سے متعلق ڈیٹا حاصل ہوگا۔
ڈاکٹر مقصود احمد نے کہا کہ اگر ایک کسان زراعت میں پانی کے استعمال کا حساب کتاب نہیں کر رہا تو وہ زرعی پیداوار میں اضافہ نہیں کرسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک نئے منصوبے کے تحت پنجاب بھر کے 72 واٹر کورسز کو واٹر اکاؤنٹنگ اور بجٹنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے جہاں تمام کسانوں کو تکنیکی مدد فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنے فارمز میں موجود آبی وسائل کو درست طور پر استعمال کرسکیں۔