یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پَر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا اتنا احترام نہیں کرسکتی۔
وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا۔ اس فن کے متعلق آپ کو یہاں کا کوئی وزیر کچھ بتا نہ سکے گا مگر کسی چیتھڑے پہنے ہوئے مزدور سے پوچھیں جس نے چونی دے کر نواب کاشمیری کو کسی فلم میں دیکھا ہے تو وہ اس کے گن گانے لگے گا۔ وہ آپ کو بتائے گا (اپنی خام زبان میں) کہ اس نے کیا کمال دکھائے۔
انگلستان کی یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی بادشاہ مرتا ہے تو فوراً اعلان کیا جاتا ہے، ’’بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو۔‘‘ نواب کاشمیری مر گیا ہے۔۔۔ لیکن میں کس نواب کاشمیری کی درازئ عمر کے لئے دعا مانگوں۔۔۔ مجھے اس کے مقابلے میں تمام کردار نگار پیارے معلوم ہوتے ہیں۔
نواب کاشمیری سے میری ملاقات بمبئی میں ہوئی۔ خان کاشمیری جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں، ساتھ تھے۔ بمبئے کے ایک اسٹوڈیو میں ہم دیر تک بیٹھے اور باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کو اپنی ایک فلمی کہانی سنائی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے بلا تکلف کہہ دیا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن مجھے پسند نہیں۔‘‘
میں اس کی بے باک تنقید سے بہت متاثرہوا۔ دوسرے روز میں نے اسے پھر ایک کہانی سنائی۔ سننے کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو اس نے رومال سے آنسو خشک کرکے مجھ سے کہا، ’’یہ کہانی آپ کس فلم کمپنی کو دے رہے ہیں۔‘‘
میں نے اس سے کہا، ’’یہ کہانی کوئی پروڈیوسر لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
نواب نے کہا، ’’تو لعنت بھیجو ان پر۔‘‘
نواب مرحوم کو پہلی بار میں نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں دیکھا تھا۔ جس میں رتن بائی ہیروئن تھی۔ نواب غدار یہودی کا پارٹ کررہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے یہودی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن جب بمبئی گیا تو یہودیوں کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ نواب نے ان کا صحیح سوفیصد صحیح چربہ اتارا ہے۔ جب نواب مرحوم سے بمبئی میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ غدار یہودیوں کا پارٹ ادا کرنے کے لیے اس نے کلکتہ میں یہ پارٹ ادا کرنے سے پہلے کئی یہودیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا رہا اور جب اس نے محسوس کیا وہ یہ رول ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے تو اس نے مسٹر بی این سرکار مالک نیو تھیٹر سے ہامی بھر لی۔
جن اصحاب نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ فلم دیکھی، ان کو نواب کاشمیری کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس نے بوڑھا بننے کے لیے اور پوپلے منہ باتیں کرنے کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے تاکہ کردار نگاری پر کوئی حرف نہ آئے۔ نواب بہت بڑا کردار نگار تھا۔ وہ کسی ایسی فلم میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھا جس میں کوئی ایسا رول نہ ہو جس میں وہ سما سکتا ہو۔ چنانچہ وہ کسی فلم کمپنی سے معاہدہ کرنے سے پہلے پوری کہانی سنتا تھا۔ اس کے بعد گھر جا کر اس پر کئی دن غور کرتا۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر انپے چہرے پر مختلف جذبات پیدا کرتا تھا۔ جب اپنی طرف سے مطمئن ہو جاتا تو معاہدہ پر دستخط کردیتا۔
اس کو آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں سے بہت محبت تھی مگر تعجب ہے کہ یہ شخص جو عرصے تک امپریل تھیٹریکل کمپنی کے ڈراموں میں اسٹیج پر آتا رہا اور دادِ تحسین وصول کرتا رہا، فلم میں آتے ہی ایک دم بدل گیا۔ اس کے لب و لہجے میں کوئی تھیٹر پن نہیں تھا۔ وہ اپنے مکالمے اسی طرح ادا کرتا تھا جس طرح کہ لوگ عام گفتگو کرتے ہیں۔جس تھیٹریکل کمپنی میں نے ذکر کیا ہے، اس میں نواب مرحوم نے ’خوب صورت بلا‘ ، ’نورِ وطن‘ اور ’باغ ایران‘ میں اپنی اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس کی دھاک بیٹھ گئی۔
نواب کاشمیری لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کے سید مفتی اعظم کے اکلوتے لڑکے تھے۔ قدرت کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہاں امام باڑے کا مفتی اعظم اور کہاں منڈوہ۔ لیکن بچپن ہی سے اس کو ناٹک سے لگاؤ تھا۔ لکھنؤ میں ایک ناٹک آئی جس کا مالک اگر وال تھا۔ اس کمپنی کے کھیل نواب باقاعدہ دیکھتا رہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اس سلسلے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، کھیل دیکھ کر گھر آتا تو گھنٹوں اس ڈرامے کے یاد رہے ہوئے مکالمے اپنے انداز میں بولتا۔
اس ناٹک کمپنی میں چنانچہ ایک مرتبہ خود کو پیش کیا کہ وہ اس کا امتحان لیں۔ ڈائریکٹر نے جب نواب کی ایکٹنگ دیکھی اور مکالمے کی ادائیگی سنی تو حیران و ششدر رہ گیا۔ اس نے فوراً اسے اپنے یہاں ملازم رکھ لیا۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی تنخواہ کیا مقرر ہوئی۔ اس کمپنی کے ساتھ نواب کلکتہ پہنچے اور اپنے مزید جوہر دکھائے۔ کاؤس جی کھٹاؤ جی نے ان کی اداکاری دیکھی تو ان کو الفریڈ تھیٹرز کمپنی میں لے لیا۔ ان دنوں وہ کیریکٹر ایکٹر مشہور ہوگئے۔
سیٹھ سکھ لال کرنانی جو الفریڈ تھیٹر کے مالک تھے اور پرلے درجے کے گدھے اور بے وقوف تھے۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے سنا کہ ایک ایکٹر جس کا نام نواب ہے، کمال کررہا ہے۔ اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ٹھیٹ اندازِ گفتگو میں کہا، ’’تو لے آؤ اس سانڈ کو۔‘‘
وہ سانڈ آگیا اور وہ سانڈ نواب کاشمیری تھا۔ اس کو زیادہ تنخواہ دے کر اپنے یہاں ملازم رکھا۔ وہ دیر تک میرا مطلب ہے دو سال تک کرنانی صاحب کی کمپنی کے کھیلوں میں کام کرتے رہے۔
مجھے یاد نہیں کون سا سن تھا۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی کی’’امپریل فلم کمپنی‘‘ نے ہندوستان کا پہلا بولتا فلم ’’عالم آرا‘‘ بنایا تھا۔ جب بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو مسٹر بی این سرکار جو بڑے تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے مالک تھے، انہوں نے جب نیو تھیٹر کی بنیاد رکھی تو نواب کاشمیری کو جس سے وہ اکثر ملتے جلتے تھے، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ تھیٹر چھوڑ کر فلمی دنیا میں آجائے۔
بی این سرکار نواب کو اپنا ملازم نہیں محبوب سمجھتے تھے۔ ان کا ذوق بہت ارفع و اعلیٰ تھا۔ وہ آرٹ کے گرویدہ تھے۔ نواب مرحوم کا پہلا فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ تھا۔ اس فلم کی ہیروئن ’’رتن بائی‘‘ تھی۔ جس کے سر کے بال اس کے ٹخنوں تک پہنچتے تھے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایک بنگالی مسٹر اٹھارتی تھے۔ ( جو دنیا تیاگ چکے ہیں) اس ٹیم میں حافظ جی اور میوزک ڈائریکٹر بالی تھے۔ اس تگڑم میں کیا کچھ ہوتا تھا، میرا خیال ہے اس مضمون میں جائز نہیں۔
مسٹر اٹھارتھی نے جو بہت پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے، مجھ سے کہا کہ نواب ایسا ایکٹر پھر کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ وہ اپنے رول میں ایسے دھنس جاتا ہے جیسے ہاتھ میں دستانہ۔ وہ اپنے فن کا ماسٹر ہے۔ حافظ جی بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا اچھا ایکٹر کبھی نہیں دیکھا۔ خیر! ان باتوں کو چھوڑیے۔ میں اب نواب ایکٹر کی طرف آتا ہوں۔
ایک فلم میں جس کا عنوان غالباً ’’مایا‘‘ تھا، مرحوم کو جیب کترے کا پارٹ دیا گیا۔ اس نے جب ساری کہانی سنی تو انکار کر دیا کہ میں یہ رول ادا نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں جیب کترا نہیں ہوں۔ میں نے آج تک کسی کی جیب نہیں کاٹی لیکن وہ کلکتے کے ایک واہیات ہوٹل میں ہر روز جاتا رہا۔ وہاں اس کی کئی جیب کتروں اور اٹھائی گیروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سنا ہے کہ ان کے ساتھ اس نے شراب بھی پی۔ حالانکہ اسے اس کی عادت نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ اس نے فلم کمپنی کے مالک سے کہہ دیا کہ وہ جیب کترے کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس نے اس دوران میں کئی بد معاشقوں اور کرداروں سے دوستی پیدا کر لی تھی۔ ان کے تمام خصائص اس نے سیکھ لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس رول میں کامیاب رہا۔
(سعادت حسن منٹو کی کتاب لاؤڈ اسپیکر میں شامل مضمون سے اقتباس)