تازہ ترین

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

پیٹرول یکم مئی سے کتنے روپے سستا ہوگا؟ شہریوں کے لیے بڑا اعلان

اسلام آباد: یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں...

وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات

ریاض: وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد اور...

پاکستان کیلیے آئی ایم ایف کی 1.1 ارب ڈالر کی قسط منظور

عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان...

الیکشن ایکٹ 2017، اپوزیشن کا ترمیمی بل کثرت رائے سے مسترد

اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات میں میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے کثرتِ رائے سے مسترد کردیا گیا، بل کی حمایت میں 98 جبکہ مخالفت میں 163 ووٹ آئے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات 2017 کا ترمیمی بل مںظوری کے لیے  حزبِ اختلاف کی جانب سے پیش کیا گیا، جس میں اپوزیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ نوازشریف نااہلی کے بعد پارٹی صدارت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ آئین سے متصادم ہے۔

مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے بل پیپلزپارٹی کے رہنماء نوید قمر نے پیش کیا۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں جو ترمیم کی گئی وہ درست نہیں کیونکہ آئین کے مطابق نااہل شخص پارٹی کی صدارت نہیں کرسکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر نااہل شخص پارٹی کی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کررہا ہو تو یہ مناسب اقدام نہیں، آئین میں مرضی کی ترمیم سے ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ’آج جو حاضری ایوان میں ہے اگر وہ گزشتہ چار سال رہتی تو بل پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ایوان میں اراکین کی موجودگی پارلیمنٹ کے وقار بلند کرتی ہے، صرف ہاتھ کھڑا کرنے سے ایوان کی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی‘۔

نوید قمر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اداروں کا احترام اور آئین پر مکمل عمل درآمد کرنا چاہیے، اُن کا مزید کہنا تھا کہ ترمیمی بل سینیٹ سے پاس ہوچکا امید ہے آج ہی قومی اسمبلی اسے منظور کرلے گی تاکہ جوائنٹ سیشن میں جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

مسلم لیگ (ن) چوہدری نثار یا شہباز شریف کو صدارت کے لیے منتخب کرلے، شاہ محمود قریشی

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کو اسپیکر نے اظہار خیال کرنے کی اجازت دی تو ایوان میں شرر شرابہ ہونے لگا جس پر ایاز صادق نے حکومتی اراکین کو روکا۔

شاہ محمود قریشی کا ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’حکومتی اراکین پرسکون رہیں اور ہمیں بات کرنے دیں کیونکہ آپ کا اپنا نقطہ نظر ہے مگر ہمارا مؤقف بھی سُن لیں، وزیر قانون کو بات کرنے کا حق حاصل ہے مگر وزیر موصوف ایوان کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’انتخابی ترمیم کا بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اسے ایوان میں متحدہ اپوزیشن نے پیش کیا تاکہ آئین کے مطابق اس قانون پر عملدرآمد کروایا جائے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کی رائے میں نااہل شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا اور نہ ہی پارٹی آفس کو چلا سکتا، انتخابی ایکٹ میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی ترمیم آئین سے متصادم ہے جسے ختم کرنا ہوگا کیونکہ قانون میں شرط تھی کہ نااہل شخص پارٹی کی سربراہی نہیں کرسکتا‘۔

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ترمیم سے قانون کی حکمرانی ختم ہوگئی کیونکہ اپوزیشن نشتوں پر نہ بیٹھنے والے لوگوں کے ذہنوں میں نااہل شخص کی حمایت ہے اس طرح سے  جمہوریت کی خدمت نہیں کی جاسکتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’ مسلم لیگ (ن) چوہدری نثار یا شہباز شریف میں سے کسی ایک کو پارٹی کی صدارت کے لیے منتخب کرلے مگر نہ جانے کیوں مسلم لیگ کے اراکین ان دونوں شخصیات پر اعتماد نہیں کررہی‘۔

ہمارا بل کسی شخصیت کے خلاف نہیں، وفاقی وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جو ترمیم ہم نے آج پیش کی وہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی منظور کروائی تھی، جنرل ایوب کے دور میں اسی طرح پولیٹیکل پارٹی ایکٹ نافذ کیا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’انتخابی ترمیم کے مطابق کوئی شخص نااہل ہوجائے تو پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا، اس ایکٹ میں بھی کچھ شرائط بھی شامل تھیں تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں آج اعتراض کرنے والی پیپلزپارٹی خود اس شق کو قانون سے نکال چکی جسے 25 سال تک آئین میں شامل نہیں کیا گیا‘

زاہد حامد کا کہنا تھا کہ ’ بے نظیر اور نوازشریف کو بیرونِ ملک مقیم رکھنے کے لیے بھٹو کی نکالی گئی شق کو بحال کیا گیا، 17 نومبر 2017 کو سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں نوید قمر، انوشہ رحمان، نعیمہ، کشور زہرہ اور دیگر افراد نے شق کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد اسے آئین سے نکالنے کی تجویز دی تھی جس کے بعد بل کو سینیٹ سے منظور کیا گیا‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ شق آئین کے خلاف ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہے، یہ ترمیم ڈیڑھ سال پہلے کی گئی مگر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا، سینیٹ سے بل کو منظور کروانے کے بعد قرار داد کی صورت میں اس ترمیم کو پاس کیا گیا‘۔

وفاقی وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کی قرار داد نوازشریف کے خلاف ہے جبکہ ہمارا بل کسی ایک شخصیت کے لیے نہیں تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے آئین سے جس شق کو نکالا آج پیپلزپارٹی وہی شق منظور کروانا چاہتی ہے‘۔

خورشید شاہ کا اظہار خیال

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زاہد حامد جس طرح آج نوازشریف کا دفاع کررہے ہیں کل اسی طرح مشرف کے لیے بولتے تھے، آئندہ معلوم نہیں وفاقی وزیر قانون کس کا دفاع کریں گے۔

رائے شماری کا مرحلہ

اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ بل کو اسپیکر قومی اسمبلی نے مسترد کرنے کا اعلان کیا تو اپوزیشن رہنماء نوید قمر نے فیصلے کو چیلنج کیا جس کے بعد اسپیکر نے تمام اراکین کو نشتوں پر کھڑے ہونے کا حکم دیا۔

مسلم لیگ ن کے رہنماء ظفر اللہ جمالی نے نااہل شخص کی پارٹی صدارت کے خلاف پیش کیے جانے والے اپوزیشن کے بل کی حمایت کی اور نشست سے کھڑے ہوگئے۔

حزب اختلاف کے 98 اراکین نے بل کی حمایت کی بعد ازاں 163 حکومتی اراکین نے بل کی مخالفت کی جس کے بعد یہ قرار کثرتِ رائے سے مسترد ہوگئی۔

Comments

- Advertisement -