بدھ, جون 18, 2025
اشتہار

ناظم پانی پتی:‌ کئی مقبول فلمی گیتوں کا فراموش کردہ شاعر

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان کی فلم نگری اور تقسیم کے بعد پاکستانی فلموں کو کئی بے مثال اور لازوال گیت دینے والے ناظم پانی پتی کو آج شاید ہی کوئی جانتا ہو گا لیکن ایک زمانہ تھا جب ان کے فلمی نغمات کا شہرہ اور بطور شاعر ان کی تعریف بمبئی سے لاہور تک خوب خوب ہوا کرتی تھی۔ ناظم پانی پتی ایک فقیر منش اور سادہ انسان تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ گیت نگار ناظم پانی پتی 18 جون 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

فلمی دنیا میں بطور گیت نگار ان کی فنی عظمت کو سبھی نے تسلیم کیا ہے، اور جب کہ وہ تقسیمِ ہند کے چند برس بعد پاکستان چلے آئے تھے، مگر بھارت کی فلم انڈسٹری میں‌ انھیں یاد کیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ 1952ء میں‌ پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری کو دل میرا توڑا، کہیں کا نہ چھوڑا، تیرے پیار نے جیسا مقبول گیت دیا اور ایک خوب صورت لوری چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا بھی انہی کی تحریر کردہ تھی جسے اکثر سنا جاتا تھا۔

ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسماعیل تھا۔ پیدائش ان کی لاہور شہر میں‌ ہوئی مگر اپنے والد کی جائے پیدائش کی مناسبت سے پانی پت کو اہمیت دی اور اسے لاحقہ بنایا۔ وہ 15 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب اور ان کی بھاوج ممتاز شانتی کا تعلق فلمی دنیا سے تھا۔ ناظم پانی پتی نے ہندوستان اور بعد میں‌ لاہور سے بننے والی فلموں کے لیے کئی مقبول گیت تخلیق کیے۔ خزانچی، پونجی، یملا جٹ، چوہدری، زمین دار اور شیریں فرہاد جیسی فلموں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے۔

جس گیت نے ناظم صاحب کو فلم بینوں سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا وہ محمد رفیع کا گایا ہوا تھا، اس کے بول تھے:

جگ والا میلہ یار تھوڑی دیر دا
ہنسدے آں رات لنگے پتا نیئں سویر دا
جگ والا میلہ یارو….

یہ فلم ”لچھی” کا وہ گیت ثابت ہوا جس کی وجہ سے فلم سپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم کے بعد ناظم صاحب کو اتنی مقبولیت ملی کہ فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولنے لگا۔

ناظم پانی پتی نے بعد میں اپنے بڑے بھائی ولی کی طرح گرامو فون کمپنیوں کے لیے گیت نگاری شروع کردی تھی۔ یہاں بھی ان کو کام یابی نصیب ہوئی۔ وہ لگ بھگ دس سال تک بمبئی میں رہے جہاں 25 سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ ان کی مشہور فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، لاڈلی، شادی، ہیر رانجھا اور دیگر شامل ہیں۔

مشہور ہے کہ ناظم پانی پتی ہی تھے جنھوں نے اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر سعادت حسن منٹو کی میّت کو غسل اور کفن دیا۔ ناظم پانی پتی نے زندگی کے آخری سال گمنامی میں گزارے کیوں کہ اس وقت پاکستان میں‌ فلمیں بننا بہت کم ہوگئی تھیں اور نگار خانے ویران پڑے تھے۔ پاکستان میں انھوں نے جن فلموں کے لیے یادگار نغمات تحریر کیے ان میں لختِ جگر، شاہی فقیر، سہیلی، بیٹی اور انسانیت سرفہرست ہیں۔ اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں گیت لکھنے کے ساتھ انھوں نے متعدد فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔

ناظم پانی پتی کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں