ہفتہ, مئی 24, 2025
اشتہار

نظم طباطبائی: تھامس گرے کی نظم کے مشہور مترجم کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

اردو زبان و ادب میں نظم طباطبائی کا نام کلامِ غالب کے ایک زبردست شارح اور نئے انداز کی نظمیں کہنے والے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ نظم طباطبائی عربی اور فارسی کے استاد بھی جاتے تھے۔ آج نظم طباطبائی کی برسی ہے۔

ان کا نام سیّد حیدر علی اور نظمؔ تخلص تھا۔ نظم طباطبائی نے 1853ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی۔ ایک قابل اور باصلاحیت طالبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ نظم طباطبائی محنتی بھی تھے۔ نوجوانی ہی میں نظم طباطبائی کی علمیت کا ایسا چرچا ہوا کہ شہزادگانِ اودھ کے اتالیق مقرر ہوگئے۔ تعلیم مکمل کی تو نظام کالج حیدرآباد میں پروفیسر مقرر ہوئے اور پھر سرکار نظام کی جانب سے نواب حیدر یار جنگ کا خطاب عطا ہوا۔ اسی دور میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور دارالترجمہ قائم ہوا جہاں نظمؔ کو ان کی قابلیت اور علمی صلاحیتوں کی بناء پر ادبی ناظر کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ وہاں ان کا کام تراجم پر نظرِ ثانی کرنا اور ان کی نوک پلک سنوارنا تھا۔

نظم طباطبائی کی شاعری قدیم اور جدید خیالات کا مجموعہ ہے۔ غزل گوئی سے انھیں زیادہ دل چسپی نہیں تھی مگر روزمرّہ محاوروں کے استعمال کا ان کی غزلوں میں خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ ان تخلیقات میں دیوانِ طباطبائی، اصطلاحاتِ غالب اور شرح دیوانِ اردوئے غالب شامل ہیں۔ نظم صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ شرحِ دیوانِ غالب ہے اور اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔

نظم طباطبائی نے انگریزی شاعری کے منظوم اردو تراجم بھی کیے جن میں مشہور انگریزی شاعر تھامس گرے کی نظم بھی شامل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ نظم طباطبائی نے گورِ غریباں کے نام سے کیا جسے شاہکار کہا جاتا ہے۔ گرے نے ان مرنے والوں کا درد ناک مرثیہ لکھا ہے جو گمنام جیے اور گمنامی کی موت پائی۔ اسی کو طباطبائی نے خوب صورتی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ نظم کی زبان سادہ ہے مگر اس میں غضب کی دل کشی ہے۔ تشبیہات اور استعارے بھی بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔

1933ء میں‌ نظم طباطبائی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں