ہفتہ, مارچ 22, 2025
اشتہار

”بابا شوکت علی…!“

اشتہار

حیرت انگیز

سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے بعد 19 مئی 1928ء کو ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے دوران موتی لعل نہرو کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی کا اعلان کیا۔ کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے لیے مقامی قیادت کے ذریعے ایک متفقہ آئینی ڈھانچا تشکیل دینا تھا جس کو تمام قومیتوں کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو۔

اس کمیٹی کی آئینی رپورٹ کو تاریخ میں نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اگست 1928ء میں شائع ہوئی جس میں مسلمانوں کے جملہ سیاسی حقوق کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ اس نہرو رپورٹ کی مولانا شوکت علی جیسے خیرخواہ اور بڑے سیاسی لیڈر نے مخالفت کی تو ہندوستان کے اخبار اور رسائل نے ہندو قائدین کے ایما پر مولانا شوکت علی سے تعصب برتتے ہوئے ان کا مضحکہ اڑایا اور کردار کشی شروع کر دی۔ اس وقت کے جیّد صحافی اور ادیب عبدالمجید سالک نے اپنے رسالہ ”افکار و حوادث“ میں‌ 8 دسمبر 1928ء کی اشاعت میں‌ اس پر خوب جواب دیا اور مولانا کی حمایت کی۔ سالک صاحب کی تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

جس دن سے مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ کی مخالفت شروع کی ہے۔ ”پرتاپ“ اور ”ملاپ“ انہیں ”بابا شوکت علی“ لکھ رہے ہیں۔ خدا جانے اس تبدیلیِ لقب کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ غالباً بابا لکھ کر یہ لوگ مولانا شوکت علی کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ دشمن تذلیل کی کوشش کرتا ہے اور مولانا ”بابا“ بن جاتے ہیں۔ یہ لفظ پنجاب میں باپ اور دادا اور علی العوم سن رسیدہ بزرگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً بابا نانک، بابا گوردت سنگھ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندو اخبارات شوکت علی کو ”بابا“ لکھ کر ان کی کہن سالی کا مضحکہ اڑانا چاہتے ہیں یا انہیں اپنا باپ تسلیم کر رہے ہیں؟ اگر یہ کہن سالی کا مضحکہ ہے تو ان اخباروں کے مدیروں کو پہلے اپنے بزرگوں کی صورتیں دیکھ لینی چاہییں۔ آخر وہ بھی تو سن رسیدہ ہی ہوں گے اور اگر وہ مولانا کو باپ کہہ رہے ہیں تو پھر یہ کہاں کی سعادت مندی ہے کہ اپنے باپ کو روزمرہ گالیاں دی جائیں؟ بازی بازی باریش بابا ہم بازی!

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں