لندن : برطانوی حکومت کی جانب سے امیگریشن سے متعلق نئے قوانین کے اعلان سے جنوبی ایشیائی ممالک کے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مذکورہ قوانین کے مطابق جو تبدیلیاں سال2024 میں لاگو ہونے والی ہیں اس کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم غیر ملکی خاندانوں میں خوف و ہراس اور ہلچل کا سماں ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مقیم ایک 25 سالہ برطانوی پاکستانی ماہر قانون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم سب گھبراہٹ کا شکار ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے برطانیہ میں مقیم شخص کے لیے خاندان کو اسپانسر کرنے کے لیے کم از کم آمدنی کی حد 18 ہزار 600 پاؤنڈز سے بڑھا کر 38 ہزار 700 پاؤنڈز کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں برطانیہ میں ابتدائی تنخواہیں 22 ہزار پاؤنڈز سے 26 ہزار پاؤنڈز سالانہ کے درمیان ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تقریباً 21 ہزار پاؤنڈز کما رہا ہوں جو کہ پچھلی حد (18 ہزار پاؤنڈز) سے کچھ زیادہ تھے، اب اچانک اس حد کو بڑھا دیا گیا ہے، میں راتوں رات 38 ہزار 600 پاؤنڈز نہیں کما سکتا۔
یاد رہے کہ برطانوی حکومت کی نئی پالیسی امیگریشن قوانین اور فیسوں میں تبدیلیوں کے سلسلے میں یہ تازہ ترین اقدام ہے، جولائی 2023 میں برطانوی حکومت نے ورک ویزا اور وزٹ ویزوں کی لاگت میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا اور ترجیحی ویزا، اسٹڈی ویزوں اور اسپانسر شپ کے سرٹیفکیٹس کی لاگت میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا۔
نئی ویزا پالیسی کی ان شرائط کا نفاذ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ورکرز پر نہیں ہوگا جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آنے والے طلبا کو بھی اپنے رشتہ داروں کو بلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔