اردو زبان و ادب میں ندا فاضلی کی وجہِ شہرت ان کی شاعری ہے۔ غزل اور نظم کے علاوہ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ وہ فلمی گیت ہیں جو کئی دہائیوں بعد بھی اسی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔
بھارت میں ندا فاضلی کو ان کی انسان دوستی اور مذہبی روادای کے حوالے سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ نثر نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں اور شاعری کے علاوہ متعدد نثری تصانیف پر بھی انھیں ایوارڈز سے نوازا گیا۔ وہ ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔
یہاں ہم ندا فاضلی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ان کے متعدد اشعار باذوق قارئین کی ڈائریوں اور ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
غزل
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں
اور کچھ دن ابھی اوروں کو ستایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
کیا ہوا شہر کو کچھ بھی تو دکھائی دے کہیں
یوں کیا جائے کبھی خود کو رلایا جائے
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلی کی ایک اور مشہور غزل پڑھیے۔
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو