بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

نگار صہبائی: وہ شاعر جس نے اردو گیت نگاری کو بلندی اور معیار عطا کیا

اشتہار

حیرت انگیز

آج ایک ایسے تخلیق کار کا یومِ وفات ہے جس نے اردو شاعری میں گیت نگاری کو اپنے کمالِ فن سے بلندی اور مقبولیت عطا کی۔ یہ نگار صہبائی تھے جنھوں نے گیت نگاری کو سنجیدہ صنف کے طور پر اپنایا اور اسے معیار دیا۔ نگار صہبائی 8 جنوری 1994ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

نگار صہبائی کے حالاتِ زندگی اور ان کی گیت نگاری پر بات کرنے سے پہلے شمیم احمد کے قلم سے گیت کی یہ تعریف پڑھتے چلیں: ’’گیت شاعری کا وہ اسلوب ہے جہاں محبّت اور نغمے کا سنگم پوری لطافت کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ اردو میں گیت، ہندی شاعری کے اثر سے وجود میں آیا اور ایک طرح سے یہ خالص ہندوستانی صنفِ سخن ہے۔ گیت کسی خاص موضوع یا ہیئت کے پابند نہیں ہاں مگر گیت میں محبوب مرد اور عاشق عورت ہوتی ہے۔ نگار صہبائی نے اپنے فلمی گیتوں اور نغمات میں وہ تجربات کیے جو ان سے پہلے اس صنف میں کسی نے نہیں کیے تھے۔

بقول سلیم احمد اردو گیت کی روایت میں نگار صہبائی پہلا شاعر ہے جس نے اس صنف کو اردو کی سنجیدہ تخلیقی صنف بنایا۔ اس نے اپنا آغاز آرزو کی پیروی سے کیا تھا اور مروجہ اسلوب میں ہلکے پھلکے گیت لکھے تھے جو اس اعتبار سے کامیاب تھے کہ گائے گئے اور پسند کئے گئے لیکن رفتہ رفتہ نگار میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کی جذباتی اور روحانی زندگی کے عمیق تر اور پیچیدہ تر تجربات خود بخود اس کے گیتوں میں درآنے لگے۔ وہ گیت کو ایک نئی زبان بولنے کا سبق پڑھا رہا تھا۔ اس زمانے میں نگار کے گیتوں کو سن کر محسوس ہواکہ وہ آہستہ آہستہ کچھ ایسے تجربات کی طرف بڑھ رہا ہے جنہیں جدید اردو شاعری کی روایت میں ابھی کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ سلیم احمد کہتے ہیں کہ نگار کا پہلا مجموعہ’’جیون درپن‘‘ تھا۔ اس مجموعہ میں اس نے ہمیں اپنی سچی جذباتی زندگی کی جھلکیاں دکھائی تھیں لیکن اس کے بعد اچانک اسے درپن پار کے درشن نظر آنے لگے اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ روایت کے ایک ایسے رنگ کا آغاز کر رہا ہے جو صرف نگار ہی کر سکتا ہے۔ ادھر نگار صہبائی بھی سلیم احمد کے بڑے مربّی اور قدر دان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلیم احمد کی ذہنی اور روحانی تربیت نے مجھے شعر کے ناتے سے مالا مال کیا اور میری شاعری کا رخ گیت کی طرف موڑا۔‘‘

- Advertisement -

منفرد اسلوب کے اس گیت نگار کا اصل نام محمد سعید تھا۔ وہ 7 اگست 1926ء کو ناگ پور میں‌ پیدا ہوئے۔ نگار صہبائی نے ابتدائی تعلیم مدراس اور ناگ پورسے حاصل کی۔ 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ انھوں نے یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔

نگار صہبائی نے قلم تھامنے کے بعد ابتدائی دور میں غزل اور نظم کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ وہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق و شیدا تھے۔ انھیں‌ مصوّری، موسیقی اور رقص کا شوق بھی رہا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، مگر گیت نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ نگار صہبائی کے گیتوں کے تین مجموعے جیون درپن، من گاگر اور انت سے آگے شایع ہوئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں