ہفتہ, فروری 22, 2025
اشتہار

نکولائی گوگول: روسی سماج کا ایک حقیقت نگار

اشتہار

حیرت انگیز

نکولائی گوگول کا نام روس کے اعلیٰ پائے کے ادیب اور بلند فکر تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جس کے لیے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوفسکی نے کہا تھا، ’ہم سب گوگول کی کہانی ’اوور کوٹ‘ سے برآمد ہوئے ہیں۔‘

اوور کوٹ ناقدین کی نظر میں گوگول کی وہ شاہ کار کہانی ہے جس نے روسی سماج کی حقیقی تصویر پیش کی۔ یہ ایک سرکاری کلرک کی کہانی ہے اور بتاتی ہے کہ کس طرح غریب آدمی کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ کلرک سماج میں اُن لوگوں کی نفرت کا سامنا کرتا ہے جو خود کو طبقۂ اعلیٰ اور اشرافیہ کا حصّہ سمجھتے ہیں۔ گوگول کا کمال یہ ہے اس نے ایک کلرک کی توہین اور بے عزّتی کو اس طرح بیان کیا کہ گویا یہ سماج کے تمام انسانوں کی تذلیل اور بے توقیری ہے۔

یوکرین میں پیدا ہونے والے نکولائی گوگول نے اس خطّے پر روسی بادشاہت دیکھی۔ بعد میں سرد جنگ تمام ہوئی تو یوکرین بھی متحدہ روس سے الگ ہوگیا تھا اور آج یہاں جنگ مسلط ہے۔ گوگول 1809ء میں پیدا ہوا۔ اس کا نام نکولائی واسیلیوچ گوگول رکھا گیا اور بعد میں اسے روسی ادب میں گوگول کے نام سے شہرت ملی۔ گوگول ان خوش قسمت ادیبوں میں‌ سے ایک ہے جسے اس کی زندگی ہی میں بطور ناول نگار شہرت مل گئی تھی۔ گوگول نے اپنے اردگرد بھوک، افلاس اور غلامی میں جکڑے ہوئے انسان دیکھے تھے جنھیں مٹھی بھر طاقت ور اور امیر لوگ اپنا غلام سمجھتے تھے۔ روسی سماج مختلف طبقات میں‌ بٹا ہوا تھا۔ زمین دار، اُن کے ساتھ کسان اور محنت کش یہ سب اشرافیہ اور نوکر شاہی کے مفادات کی زد پر تھے۔ ظلم کی مختلف شکلیں، جبر اور استحصال عام تھا۔ اس کے علاوہ گوگول نے بہت سے ایسے معاشرتی مسائل اور خامیاں دیکھیں جو دراصل استحصال کی مختلف شکلوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھا اور اس کے والد تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھتے تھے جب کہ خاندان کے بعض افراد بھی تھیٹر اور فن و ادب سے وابستہ تھے۔ اسی نے گوگول کو بھی لکھنے پر آمادہ کیا اور اس نے سماج کے مسائل اور ظلم و ستم کے واقعات کو کہانیوں کی شکل میں بیان کرنا شروع کردیا۔ اس کے قلم کی ایک خاصیت گہرے طنز کے ساتھ مزاح کی چاشنی تھی جس نے گوگول کو قارئین میں‌ مقبول بنایا۔

گوگول کے والد کا انتقال ہوا تو اس کی عمر 15 برس تھی۔ والد کی وجہ سے گوگول کو اداکاری کا شوق بھی ہوگیا تھا۔ اس نے اداکاری کے لیے کوشش بھی کی مگر پھر قلم کی کشش نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ 1828ء میں‌ گوگول نے گریجویشن مکمل کر کے سینٹ پیٹرس برگ کا رخ کیا۔ وہ سرکاری نوکری کی خواہش رکھتا تھا اور اس کے حصول میں ناکامی کے بعد بطور اداکار جرمنی پہنچ گیا لیکن وہاں‌ اسے کم اجرت پر نوکری مل گئی، جسے جلد ہی خیرباد بھی کہہ دیا۔ اس عرصہ میں وہ کہانیاں لکھنے لگا تھا اور پھر انھیں کتابی شکل میں قارئین تک پہنچانے کا خیال آیا۔ لیکن وہ یہ توقع نہیں‌ رکھتا تھا کہ ان کہانیوں کو اس قدر پسند کیا جائے گا۔ اس نے ملک گیر شہرت پائی اور 1831ء اور 1832ء میں‌ اس کی کہانیاں‌ روس میں مقبول ہوئیں۔

گوگول نے روس اور یوکرین بھر میں ادبی حلقوں‌ کو اپنی جانب متوجہ پایا تو 1835ء میں‌ اس نے قزاقوں‌ پر اپنا تاریخی ناول تاراس بلبا بھی شایع کروایا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بعد کے برسوں‌ میں اس ناول کا شمار روسی ادب کے شاہ کار ناولوں‌ میں کیا گیا۔ اگلے سال نکولائی گوگول نے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ انسپکٹر جنرل لکھا جس میں‌ اس نے اشرافیہ اور نوکر شاہی پر چوٹ کی تھی۔ عوام نے تو اسے بہت پسند کیا لیکن اس ناول پر وہ سلطنت میں‌ زیرِ عتاب آیا اور اسے روس چھوڑ کر اٹلی جانا پڑا۔ وہاں چھے سال قیام کے دوران گوگول نے کہانیاں‌ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور 1842ء میں‌ اس کا ناول مردہ روحیں کے نام سے منظرِ عام پر آیا اور یہ ناول بھی روسی ادب میں ایک شاہ کار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دور میں‌ گوگول کا رجحان مذہب اور اخلاقیات کی طرف ہوگیا، لیکن اس راستے میں وہ اعتدال اور توازن کھو بیٹھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کا یہ نام ور ادیب خبط میں مبتلا ہوگیا اور خود کو شدید گناہ گار اور لائقِ‌ ملامت تصوّر کرنے لگا۔ اس کیفیت میں 1852ء میں‌ گوگول نے اپنے ناول کا مسودہ بھی جلا دیا تھا اور اسی برس 21 فروری کو چل بسا۔

آج اٹھارہویں صدی کے اس ادیب کا یومِ وفات ہے جس نے روزمرّہ کی زندگی کو اپنے نقطۂ نگار سے دیکھا اور اپنے دل کش اسلوب میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ گوگول کی پرتاثیر کہانیاں دراصل اس کی حقیقیت نگاری کا وہ روپ ہیں جسے اس دور میں روایات سے انحراف اور بغاوت تصوّر کیا گیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں