ہفتہ, دسمبر 7, 2024
اشتہار

عقلیت پسند دانش وَر، شاعر، ادیب، اور نقّاد نیاز فتح پوری کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدائی گھرانے اور انجمنیں نیاز فتح‌ پوری کی نیاز مند رہی ہیں۔ ان کی قابلیت، علمی استعداد اور نکتہ رسی کی قائل وہ شخصیات اور بڑے بڑے اسکالرز بھی تھے جن کا نیاز فتح پوری سے مذہبی معاملات اور دینی امور پر شدید اختلاف بہرحال رہا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیاز فتح پوری نے اپنی فکر اور ذوقِ علم کو اپنی تعقل پسندی اور دلائل و براہین سے اس درجہ بلند کر لیا کہ ان کی بات ہر طبقۂ سماج تک پہنچی اور اسے قبول بھی کیا گیا۔ نیاز فتح پوری نے اسلام کے پیغام کو پوری دیانت داری سے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے اپنی عقل کا سہارا لیا۔

نیاز فتح پوری ہمیں اپنے دور کے ایک جدید صوفی نظر آتے ہیں جن کی فکر پختگی کی حد کو پہنچ کر مذہب کے بنیادی اصولوں کی مظہر اور ترجمان بن گئی جسے نیاز صاحب کے قلم نے اُن کے دل کش اور نہایت متاثر کن اسلوب میں کتاب کر دیا۔

کون تھا جو نیاز فتح پوری کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں تو کہیں مذہب اور زندگی، اصول، قوانین، روایات اور انسانیت سے متعلق دقیق، پُرپیچ اور گنجلک موضوعات پر لیکچر دیتے اور مضامین رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فلسفیانہ انداز میں مسائل کا حل نکالنے، بہت سی گتھیاں سلجھانے کے اُن کے انداز سے متأثر تھا تو کسی کو مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر نیاز فتح‌ پوری کی مدلّل گفتگو اور مباحث میں کشش محسوس ہوتی تھی۔

- Advertisement -

ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے تال میل پر ان کے مضامین، اور بعد میں اپنی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات کے علاوہ مختلف تراجم جو نیاز صاحب نے کیے، ان کا بہت شہرہ تھا۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ تھی جب کہ رسالہ ’’نگار‘‘ ان کی ادارت میں‌ برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر اور شعور کو بلند کرتا رہا۔

نیاز فتح پوری ایک عقلیت پسند کی حیثیت سے مشہور تھے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ شاعر، افسانہ نگار، نقّاد اور محقق تو تھے ہی مگر انھیں ایک مفکّر، عالمِ دین، مؤرخ اور ماہرِ نفسیات بھی کہا جاتا ہے جن کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ یہ وہ رسالہ تھا جس میں ادب کے علاوہ فلسفہ، مذہب اور سائنس پر شان دار تحریریں‌ شایع ہوتی تھیں جس نے اپنے قارئین میں پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کی عادت کو پروان چڑھایا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا اور خوب جم کر لکھا۔

1924ء کے ایک شمارۂ نگار میں ان کا ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ جب کہ 1935ء کی اشاعت میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسا مضمون شایع ہوا تھا اور ان مضامین کا خوب شہرہ ہوا تھا۔ یہ تحریریں ایک طرف نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ان کی فکر و نظر کی بلندی اور دوسری جانب اس دور میں مصنّف کے سائنسی رجحان کا پتا دیتی ہیں۔

نیاز صاحب کو عقلیت پسندی کے سبب اپنے دور میں سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اُن پر بگاڑ کا الزام عائد کرتے ہوئے فتاویٰ جاری کیے گئے جب کہ قدامت پسند حلقوں کی طرف سے اُن کی بھرپور مخالفت کی جاتی رہی۔

معروف شاعر، ادیب اور کالم نگار جمیل الدّین عالی نیاز صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: ” فروری 1922ء میں جب علّامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی۔ نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشا پردازی سب میں ان کا سکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہو گئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا۔ جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہ ے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلا دی اور اہلِ قلم پیدا کیے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔”

جہانِ علم و ادب 24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری سے محروم ہوگیا تھا۔ نیاز صاحب کا وطن یوپی کا ضلع بارہ بنکی تھا جہاں وہ 28 دسمبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ نیاز محمد خان ان کا نام رکھا گیا۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور، رام پور اور بعد میں لکھنؤ کے مشہور دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم حاصل کی۔ شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا اور غور و فکر کی عادت بھی وقت کے ساتھ پختہ ہوگئی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے مطالعہ اور مشاہدہ کی قوّت نے ان کو اس قابل بنا دیا وہ اپنے خیالات اور مشاہدات کو رقم کرسکیں۔ نیاز صاحب شاعری کا آغاز کیا اور پھر افسانہ بھی لکھنے لگے۔ اس کے ساتھ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو محکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے۔ لیکن 1902ء میں سب انسپکٹر ہوئے تھے جب یہ ملازمت ترک کر دی۔ اگلے کئی برس مختلف کام کیے اور پھر 1922ء میں نیاز فتح پوری نے نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے بعد 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور اسی شہر میں وفات پائی۔

رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، "نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔”

علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات مقبول ہوئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔

علّامہ نیاز فتح پوری کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ انھیں کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں