تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

قلم سے کلام: سیاسی گھوڑے

تحریر عدنان انور:خود تو دوڑنے سے قاصر، مگر عوام کے ووٹوں سے منتخب یہ گھوڑے اپنے قیمتوں کے حوالےسے جوڑتوڑ کے بڑے ماہر جانے جاتے ہیں کیونکہ آجکل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی اصطبل میں موجود یہ گھوڑے بندے ہوئے یا پھر باندھے ہوئے ہیں جہاں انکی خوب آو بھگت ہورہی ہے، سنا ہے کہ سیب کے مربہ جوپہلے واقعی میں اک سیاسی بازیگر کے گھوڑے کھاتے تھے-

آج انہی مربوں سے سیاسی گھوڑوں کی بھی خوب خاطر مدارت کیجارہی ہیں، جبکہ سیاسی جادوگر سیاسی بازیگروں کی ہر چال پر نظر رکھتےہوئے ان بازیگروں کے سیاسی گھوڑوں کے احوال اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر اپنی پیش گوئیوں کے تناظر میں انکے مستقبل کے تعین کی نوید سناتے نظر آرہے ہیں کافی دن سے پراعتماد قوم کی منتخب حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنے کی جومشق کیجارہی ہیں کیا وہ عوام پاکستان کے مفاد میں ہیں ، ملکی یا قومی مفاد میں تومیری نظر میں اسکا جواب صرف اورصرف نہیں ہے-کیوں کہ عدم اعتماد کی تحریکوں کی آڑمیں جس قسم کی جوڑتوڑ اور اسکو ہوا دینے والے سیاستدان اور اسکے زریعے عوام کے ووٹوں سے منتخب یہ نمائندے جن کے لئے ہماری قوم لمبی لائنوں مِیں لگ کر ووٹ دیکراور رات بھر ٹی وی اسکرین پر نتائج کے انتظار مِیں اونگھتے ووٹرز کے ساتھ کیا اک سنگین مذاق نہیں ہے تو اور کیا ہیں ووٹ عوام دیں اور اپنی بولیاں یہ لگوائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہم دس کروڑ اور پندرہ کروڑ کے درمیان میں ہے-

اور پھر اچانک ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ منتخب نمائندے آخر کار اپنی ہولی لگانے میں کامیاب ہوتے ہوئے حکومتی مخالف کیمپ میں جابیٹھے چلیں کوئی بات نہیں،شاید پاکستان اور عوام کی قسمت ہی یہی ہے کہ انکی قسمت تو نہ جاگی مگر جوڑ توڑ کے زریعہ سیاسی گھوڑوں کی کایا تو پلٹی اورعوامی پیسوں پر ایکبار پھر ڈاکہ ڈالنے میں سیاسی بازیگر آخرکار کامیاب ہوہی گئے۔ جسکا بوجھ آئندہ بھی عوام کی جیبوں پر ہی ہوگا،عوام کو عدم اعتماد سے کیا لینا، عوام توبیچاری کھانے کا تیل خریدنے سے بھی قاصر ہیں،مہنگائی سے برا حال ہیں،رمضان المبارک کا مہینہ بھی سر پر آن پہنچا ہے اس مہینے میں لوگوں کی بڑی تعداد رمضان کے فیوض وبرکات محروم رہ جائیگی،جسکی واضح وجہ مہنگائی ،گرانفروشی اور کساد بازاری ہیں ۔

اسطرف سے قوم کادھیان ہٹا کر لوگوں کو عدم اعتماد کی بتی کے پیچھے لگادیا ہیں،مہنگائی کے سبب مائیں اپنے بچوں کے دودھ لینے سے بھی محروم نظرآتی ہیں وہ دووقت کی روٹی کہاں سے حاصل کرینگی، جبکہ جوسیاسی بازیگر اسوقت عدم اعتماد پیش کررہے ہیں ،کیامستقبل قریب میں جب یہی جماعتیں حکومت میں ہونگی توکیا یہ مہنگائی سمیت تمام مسائل پر قابو پالیگی اور پاکستان کو ہر قسم کے بحران سے نکالنے میں کامیاب ہونگی؟

یا پھر وہی پرانا بیانیہ دہرایا جائیگا کہ یہ مسائل تو ہمیں پچھلی حکومت سے ورثہ میں ملےہیں۔

ہماری عوام کے سامنے تمام چینلزاور زرائع ابلاغ کے جتنے بھی زرائع ہیں وہ چیخ چیخ کرسیاسی گھوڑوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں بتارہی ہیں،مگر ہماری بیچاری عوام ابھی تک سیاسی بازیگروں کی شعبدہ بازیوں کے چکر سے نہیں نکل سکے،ابھی بھی وقت ہے کہ عوام اپنی سیاسی وجذباتی لگاؤ یا تعلق سے بالاتر ہوکرسوچیں اور آئندہ الیکشن میں اپنے ووٹوں کا تحفظ کرتےہوَئے اپنا قیمتی ووٹ کسی سیاسی گھوڑے کو نہ دیں-

یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Comments

- Advertisement -