تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کام کوئی نہیں، تنخواہ 2 لاکھ 25 ہزار، بے روزگاروں کے لیے خصوصی خوش خبری

کیا آپ ایسی ملازمت کرنا چاہیں گے جس میں کوئی کام کیے بغیر غیر مشروط طور پر ماہانہ دو لاکھ 25 ہزار روپے سے زائد رقم بطور بنیادی تنخواہ ادا کی جائے؟

جی ہاں جرمنی کی ایک نجی این جی او  نے ’غیر مشروط آمدنی سے گزارا کیسے ہوگا‘ نامی تحقیق کا آغاز کیا ہے، جس میں حصّہ لینے والے افراد کو تین سال تک 1200 یورو ماہانہ (2 لاکھ 25 ہزار روپےسے زائد) بطور بنیادی تنخواہ دئیے جائیں گے۔

اس سروے کےلیے این جی او کو  1500 افراد کی ضرورت ہے جس میں سے صرف 120 افراد کا انتخاب کرکے انہیں تین سال تک ماہانہ بنیادی تنخواہ فراہم کی جائے گی لیکن اب تک پندرہ لاکھ افراد ملازمت کےلیے رضامندی ظاہر کرچکے ہیں۔

ملازمت کے تین سالہ عرصے کے دوران این جی او تحقیق میں حصہ لینے والے افراد سے 7 مرتبہ ایک سوال نامہ پُر کروائے گی، تاکہ معلوم کیا جاسکے غیرمشروط بنیادی آمدنی سے امیدواران کا گزارا کیسے ہوا اور ان افراد کے روّیوں میں کیا تبدیلی آئی۔

اس سروے کے اختتام تک تمام افراد کے پاس 43 ہزار 200 یورو فی کس ہوں گے، جس کےلیے ڈیڑھ لاکھ ڈونرز کی جانب سے 52 لاکھ یورو کی خطیر رقم فراہم کی جاچکی ہے۔

مائی بیسک انکم نامی این جی او کا کہنا ہے کہ اگر تمام شہریوں کو غیر مشروط بنیادی تنخواہ فراہم کی جائے تو معاشرے کے بہت سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں کیوں کہ اگر انسانوں پر مسلسل پیسہ کمانے کا دباؤ نہ ہو تو وہ خود کو مزید تخلیقی، آزاد اور خوش محسوس کرسکتا ہے۔

ای جی او کا کہنا ہے کہ مذکورہ باتیں ابھی صرف خواب ہیں لیکن اس کا جواب تین سالہ سائنسی تحقیق کے دوران تلاش کیا جائے گا۔

اس منصوبے کے سربراہ اور جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے رکن یؤرگن شوپ کا مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہم اس چیز کا مشاہدہ کریں گے کہ اگر لوگوں کو مادی سکیورٹی کی یقین دہانی کروائی جائے تو ان کے رویے کیسے ہوں گے‘؟

انہوں نے بتایا کہ اس دوران یہ بھی مشاہدہ کیا جائے گا کہ تجربے میں شامل افراد تمام پیسے خرچ کر دیتے ہیں یا پھر کچھ بچت بھی کرتے ہیں، کیا وہ زیادہ محنت کرتے ہیں یا پھر محنت بالکل ہی چھوڑ دیں گے؟ اور آیا وہ ان پیسوں میں سے کچھ عطیہ میں بھی کریں گے یا نہیں؟

یؤرگن شوپ کے مطابق اس تین سالہ تجربے کے دوران وہ تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ضروری ہیں، لوگوں کا اسٹریس لیول بھی ان کے بالوں کے سیمپلوں سے چیک جائے گا۔

اس منصوبے کےلیے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ مستقبل میں ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومائزیشن کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع کم ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے اسی ماڈل کو اپنانے کی ضرورت پیش آئے گی۔

Comments

- Advertisement -