نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
باغ کا مالک ونچنزو انگور کی بیل کی جڑ میں بیٹھ گیا، اور مٹی کھودنے لگا، لیکن اس نے ابھی ایک مٹھی مٹی ہی باہر نکالی تھی کہ ہڈیوں پر مبنی ہاتھ باہر نکلا اور ونچنزو کی کلائی پکڑ لی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی اور ایک جھٹکے سے ہاتھ کھینچا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے جا گرا لیکن ہاتھ نہیں چھڑا پایا۔ وہ تینوں خوف سے اسے دیکھنے لگے لیکن ابھی وہ کچھ سوچ بھی ںہیں سکے تھے کہ ایک ہاتھ اور نکلا اور اس نے فیونا کی ٹانگ پکڑ لی۔
جبران نے صورت حال بھانپ لی اور فوراً پیچھے ہٹ گیا لیکن پھر بھی دیر کر دی، ایک ڈھانچا ہاتھ کی انگلیاں اس کے ٹخنے سے بھی لپٹ چکی تھیں۔ جبران نے نیچے جھک کر ہاتھ کو دیکھا، صرف ہڈیاں ہی تھیں۔ جبران نے زور لگا کر اپنا پیر چھڑانا چاہا تو ہاتھ نے اسے زمین کے اندر کھینچنا شروع کر دیا۔ وہ چلا کر بولا: ’’یہ مجھے اندر کھینچ رہا ہے، میری مدد کرو۔‘‘
فیونا نے فوراً آگ کے بارے میں سوچا اور ہر ڈھانچے کے بازو کے نیچے ایک شعلہ بھڑک اٹھا، ذرا سی دیر میں شعلوں سے ہڈیاں سیاہ ہو گئیں لیکن کسی نے گرفت نہ چھوڑی۔ ونچنزو آگ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا۔ اس نے بچوں سے پوچھا کہ یہ آگ اچانک کہاں سے آ گئی، اور تم لوگ ہو کون؟ لیکن اسی وقت ہاتھ نے اسے زمین کے اندر ایک جھٹکے سے کھینچا اور وہ لڑکھڑا کر دوبارہ گر گیا۔
دانیال نے چلا کر کہا: ’’فیونا، خود کو بڑا کر دو، اس کے بغیر ہم بچ نہیں پائیں گے۔‘‘ ڈھانچا ہاتھ نے مٹی کے اندر کمر تک کھینچ لیا تھا، اور وہ مسلسل اس سے نجات کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ فیونا کو یہ خیال پسند آیا۔ جیسے ہی اس نے بڑا ہونے کے بارے میں سوچا، اُس کا جسم پھیلتا چلا گیا، اور ڈھانچے کے ہاتھ کی گرفت خود بہ خود ہٹ گئی۔ لیکن ہاتھ نے ونچنزو کی طرف جا کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ فیونا اس وقت تک بڑھتی رہی جب تک کہ اس کی اونچائی پچاس فٹ نہ ہو گئی۔ پھر اس نے ونچنزو کی کلائی کے گرد لپٹی ہڈیوں کو پکڑا اور اپنی مٹھی میں کچل کر چورا بنا دیا، اس نے دیکھا کہ ہڈیاں ایک سفید پاؤڈر میں تبدیل ہو گئیں۔ ہڈیوں والے ایک ہاتھ نے ونچنزو کی ٹانگ بھی پکڑ رکھی تھی، فیونا نے اسے بھی سفید چورا بنا دیا۔
دوسری طرف دانیال اب اپنی گردن تک مٹی میں دب چکا تھا، فیونا اس کی طرف بڑھی۔ دانیال اپنا سر زمین سے باہر رکھنے کے لیے سخت کوشش کر رہا تھا، اور اس کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکل رہی تھیں۔ فیونا نے اسے سر سے پکڑ اوپر کھینچ لیا اور وہ زمین سے باہر نکل آیا۔ ہڈیوں والے ہاتھ نے بدستور اس کی ٹانگ پکڑی ہوئی تھی، فیونا نے اسے بھی چورا بنا دیا۔ اس کے بعد فیونا نے جبران کو بھی چھڑا لیا۔
ونچنزو کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں، اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ سچ مچ ہو رہا ہے۔ فیونا نے دانیال اور اسے پکڑ کر اٹھایا اور گھر کے اندر لے جا کر برآمدے میں اتار دیا۔
باغ کا مالک پوری طرح حیرت میں جکڑا ہوا تھا، لیکن اچانک اس کے منھ سے نکلا: ’’لڑکی، مجھے نہیں پتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، لیکن تم جس چیز کو ڈھونڈ رہی تھی مجھے لگتا ہے کہ یہ وہی ہے۔‘‘ ونچنزو نے مٹھی کھول کر دکھائی تو اس میں پکھراج موجود تھا۔ اس نے کہا: ’’جیسے ہی تمھاری انگوٹھی کا یہ قیمتی پتھر میرے ہاتھ لگا، اچانک ہڈیوں والے ہاتھ نے مجھے پکڑ لیا تھا۔‘‘
فیونا نے بے تابی سے اسے لے لیا اور اپنی آنکھ کے قریب لے جا کر دیکھا تو اس کے اندر ڈریگن دکھائی دے رہا تھا، اسی وقت اس میں چمک پیدا ہو گئی۔ فیونا نے فوراً باغ کے مالک کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے ان سب کی جان بچ گئی۔
ونچنزو حیران اور پریشان تھا لیکن اس نے کہا: ’’جو کچھ بھی یہاں ہوا، ضرور اس کی کچھ وجہ اور وضاحت ہوگی، لیکن اس وقت مجھے نہیں لگتا ہے کہ میں اسے جاننا چاہوں گا۔ پہلے تم تینوں کچھ کھا پی لو۔ میری بیوی انجلینا اچھا کھانا پکاتی ہے۔ کھانے کے بعد میں تمھیں انگور کا باغ دکھا دوں گا۔‘‘
کھانا کھانے کے بعد وہ باغ کی سیر کو نکل گئے۔ ونچنزو نے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اس کا خاندان اٹلی سے تسمانیہ ہجرت کر گیا تھا، اور والد نے یہ انگور کا باغ شروع کیا اور جب وہ گزر گئے تو وہ اسے دیکھنے لگا۔ اس نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ میرا بیٹا نیکولو میرے گزرنے کے بعد اس باغ کو سنبھالے گا، نیکولو ہوبارٹ گیا ہے۔‘‘
ونچنزو نے انھیں شہر پہنچانے کی پیش کش کی تو وہ خوش ہو گئے۔ جب وہ گاڑی پر چڑھ کر جانے لگے تو فیونا نے اس کے کان کے قریب آہستگی سے کہا: ’’اگر آپ اپنے باغ کے آخری سرے پر جا کر انگور کی آخری قطار سے بالکل پہلے کھدائی کریں گے تو آپ کو ایک خزانہ ملے گا، یہ قیمتی دھاتیں ہیں، شاید سونا یا پھر چاندی۔‘‘ ونچنزو یہ سن کر چونک اٹھا اور حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگا، پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہ گیراج سے باہر نکل آئے۔ کافی دور جا کر اس نے بھی آہستگی سے کہا: ’’مجھے تم پر یقین کرنے کو دل کرنے لگا ہے، جب میں ہوبارٹ سے واپس آؤں گا تو وہاں جا کر ضرور دیکھوں گا۔‘‘