نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جونی یادداشتوں میں جیسے ڈوب گیا تھا، وہ بولتا گیا: ’’پہان بھی وہیں رہتا تھا لیکن وہ شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور لالچ کے مارے غلط راستے پر چل پڑا۔ اور پھر اس کے زیلیا میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد اس نے کنگ دوگان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ بس، اس کے بعد ہی مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس کے پردادا بارتولف بھی ایک جادوگر تھا، مجھے اس وقت اس کا نام صحیح طور سے یاد نہیں آ رہا ہے، مجھے کتاب میں دیکھنا پڑے گا۔‘‘
ناول کی پچھلی اقساط اس لنککی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
جونی کہتے کہتے خاموش ہوا تو مائری نے کھڑے ہو کر کہا: ’’جونی، یہ سب تو بس ایک کہانی ہی ہے، مجھ سے تو اتنی ساری باتیں ہضم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ جادوگر، شہنشاہ اور شیطان صفت لوگ … یہ سب تو قصے کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے کچھ دیر کے لیے باہر کھلی ہوا میں جانا چاہیے، ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔ حقیقت میں ایسی چیزیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔
جونی نے کتاب بند کی اور اٹھتے ہوئے کہا: ’’میں اس کتاب کے بارے میں بعد میں بتاؤں گا، ابھی مجھے لگتا ہے کہ مائری کو سمجھانا ضروری ہے۔‘‘
وہ باہر نکلا تو مائری صنوبر کے درخت کے پاس کھڑی ہوا میں اڑنے والی بطخوں کی ڈار کو دیکھ رہی تھیں۔ بطخیں وی کی شکل میں جھیل کی طرف اڑ رہی تھیں۔ جونی نے کہا: ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک عام انسان کے ساتھ اس طرح کی عجیب و غریب اور خطرناک واقعات ہونے لگتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتا ہے، اسے یقین نہیں آتا۔ حالاں کہ سب کچھ اس کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔‘‘
مائری نے کہا: ’’مجھے بدمزاج مت سمجھنا پلیز، تم ٹھیک نے کہا، ایسا ہی کچھ ہوا ہے میرے ساتھ۔ یہ فضا دیکھو، ہوا میں صنوبر کی مہک، فضا میں بطخوں کی قیں قیں، اور ہوا کی کی یہ نرم لہریں مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے لطف اٹھاتی ہوں۔‘‘ جونی مسکرایا اور ایک ہار ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا: ’’یہ دیکھو، قدیم ہار، یہ ملکہ سرمنتھا کا ہار ہے، انھیں بہت پسند تھا، آپ یہ پہنیں گی تو آپ کو یہ سب سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
مائری نے نیکلس پہنا تو انھیں ایسے لگا جیسے وہ واقعی شاہی خاندان کی وارث ہیں۔ اچانک مائری خواب آلود لہجے میں بولیں: ’’جونی، ابھی کچھ دیر قبل میں قلعہ آذر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے پاگل مت سمجھنا لیکن میں چاہتی ہوں کہ قلعہ آذر میری ملکیت میں آ جائے۔ وہ میرے آبا و اجداد سے تعلق رکھتا ہے، میں اسے صاف ستھرا کر کے اس میں منتقل ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن تب ہی ممکن ہوگا جب ہم جھیل لوچ کی بلاؤں سے نجات حاصل کر لیں۔‘‘
’’ارے وہاں کوئی بلا نہیں ہے۔‘‘ جونی نے قہقہہ لگایا۔ ’’وہ تو ڈریٹن اور پہلان نے لوگوں کو قلعے سے دور رکھنے کے لیے تماشے دکھائے تھے، ورنہ جھیل تو بہت پرسکون ہے۔ جہاں تک قلعے کا تعلق ہے تو اس میں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہاں اب تم اکیلی نہیں ہو تمھاری مدد کرنے والے بہت سارے لوگ آ چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی قلعہ آذر میں ایک بار پھر رہائش کا خیال بہت جوش دلاتا ہے۔‘‘
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ مائری کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تصور میں خود کو قلعہ آذر میں کسی ملکہ کی طرح گھومتے پھرتے دیکھنے لگیں۔
’’میں سوچ رہی ہوں کہ ہمیں وہاں بجلی اور پانی کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ قلعے کو اندر سے گرم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا اور جگہ جگہ بننے والے سوراخوں کو بند کرنا ہوگا۔ کیا ہم یہ کر سکیں گے؟‘‘