نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھیں‌
فیونا کے پیر دریا کے برفیلے پانی میں بھیگ گئے تھے۔ بھورے بالوں والے ریچھ، جن میں سے کچھ کا قد چھ فٹ اونچا تھا اور چند چھوٹے، ننھے بچے دکھائی دے رہے تھے، تیز رفتار پانی کے درمیان کھڑے تھے اور سالمن مچھلیوں کا انتظار کر رہے تھے کے پانی میں بہتے ہوئے آ کر ان کے کھلے منھ میں پہنچ جائیں۔
فیونا نے سردی محسوس کی تو شکر ادا کیا کہ وہ کوٹ لے کر نکلے تھے۔ وہ تینوں دریا سے دور جاتے ہوئے سرکنڈے کی جھاڑیوں کی طرف بڑھے۔ ایسے میں دانیال بولا: ’’ہم الاسکا میں ہیں، میں نے ایک تصویر میں ریچھ کو منھ میں مچھلی پکڑے دیکھا تھا، اور یہ الاسکا کی تھی۔‘‘ جبران نے کہا کہ وہ الاسکا میں نہیں ہو سکتے، کیوں کہ فہرست میں جن جگہوں کا ذکر ہے یہ ان میں سے ہے ہی نہیں، یہ شاید الاسکا کے قریب کی کوئی جگہ ہے۔ فیونا بولنے لگی: ’’ہم یوکان میں ہیں جو الاسکا کے ساتھ ہی ہے۔ اس علاقے کا نام اسی دریا کے نام پر ہے یعنی یوکان، جو الاسکا کی زبان وِچِن کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے سفید پانی کا دریا، اور یہ یوکان اور الاسکا دونوں جگہ بہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اچانک اپنے گال پر تھپڑ مار دیا۔ ’’اُف، ان مچھروں کا کیا کریں، یہ تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں، ہمارے ہاں کے مچھر تو ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔‘‘
جبران نے بھی بھنبھناتے مچھروں کے غول پر ہاتھ مار کر اسے منتشر کرنے کی ناکام کوشش کی اور کہا: ’’پانی کو دیکھو، یہ دریا ہے یا مچھروں کی چادر تنی ہوئی ہے!‘‘
ان تینوں سے کچھ فاصلے پر سیاح اپنے کیمروں سے ریچھ کی تصاویر لے رہے تھے۔ جبران نے فیونا سے کیمرہ لیا اور کہا: ’’میں ذرا جنگلی پھولوں کی تصاویر لے لوں۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمھارا!‘‘ دانیال تیز لہجے میں بولا: ’’پھولوں کی تصویر تو تم گھر پر بھی لے سکتے ہو، جب کہ یہ بھورے بالوں والے ریچھ ہم پھر نہیں دیکھ پائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا اور ریچھوں اور مچھلیوں کی چند تصاویر بنانے کے بعد پھولوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ’’یہ دیکھو، یہ بالکل بنفشہ کی طرح کے پھول ہیں۔‘‘ وہ ایک پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: ’’یہ دراصل روغنی پھول ہے جس کے پتوں پر لیس دار مادہ ہوتا ہے اور یہ حشرات کو پکڑ لیتے ہیں، یہی حشرات ان پودوں کی غذا ہے۔‘‘
دانیال یہ سن کر حیران ہوا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ یہ پودے کیڑے کھاتے ہیں؟‘‘ وہ دل چسپی سے ان کیڑے خور پودوں کو دل چسپی سے جھک کر قریب سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بتایا کہ یہ بٹروارٹ کہلاتے ہیں۔ فیونا نے انھیں ٹوکا کہ زمّرد ڈھونڈنے جانا ہے۔ جبران نے وہاں موجود پیلے رنگ کے قطبی گل لالہ کی ایک تصویر بنائی۔ دانیال ریچھوں کو دیکھنے کے لیے دریا کی طرف چلا گیا جب کہ فیونا خشک گھاس والی ایک جگہ دیکھ کر وہاں گئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں موند لیں تو تصور میں ایک بہت بڑا گلیشیئر نظر آیا۔ نیلی برف میں سے بڑے بڑے ٹکڑے ٹوٹ کر الگ ہو رہے تھے، اور تب اس نے ان کی تہہ میں زمرد کو دیکھ لیا۔
(جاری ہے)

Comments