نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈالرز جیبوں میں ٹھونسنے کے بعد ڈریٹن نے وہاں مزید رکنا بے کار سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ فیونا اور اس کے دوست زمرد حاصل کر چکے ہوں گے، لہٰذا وہ ایک عمارت کے پیچھے گیا اور غائب ہو گیا، اس کے بعد اس نے خود کو مک ایلسٹر کے گھر میں کھڑے پایا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد اس نے کود کلامی کی، مجھے جا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ تینوں بدمعاش قیمتی پتھر حاصل کر چکے ہیں یا نہیں۔ اور پھر وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی کے نیچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر وہ اندر جھانکنے لگا اور دیکھا کہ زمرد آ چکا ہے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔
۔۔۔
وہ تینوں جیسے اینگس کے گھر میں نمودار ہوئے، فیونا کی ممی مائری بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’شکر ہے تم سلامت لوٹ آئے۔‘‘ اینگس نے کہا میں نے کہا تھا کہ یہ بس تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ انھیں فیونا تھکی تھکی لگی۔ فیونا نے جیب سے زمرد نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ جبران نے بھی گلے سے کیمرہ اتار کر واپس کر دیا۔ اینگس نے ان کی داستان سننے سے قبل زمرد رالفن کے گولے میں رکھنا ضروری سمجھا، اور وہ سب گولہ لے کر دیوان خانے میں آ گئے۔ اینگس نے پتھر جیسے ہی جادوئی گیند میں مخصوص خانے میں رکھی، باقی تین پتھروں کی مانند زمرد بھی جھلملانے لگا، اور انھوں نے اس کی روشنی دھیرے دھیرے تیز ہوتے دیکھی۔
’’بہت شان دار۔‘‘ جمی نے کہا: ’’مجھے یاد ہے یہ اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جب کنگ کیگان نے گولے سے انھیں ہٹایا اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک دیا۔ آج ہم یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹے سے گھر میں پھر اکھٹے ہو گئے ہیں اور وہی جادوئی گیند ہمارے سامنے ہے۔‘‘
جیک نے کہا: ’’یہ سب کچھ بہت عجیب ہے لیکن ہے ناقابل فراموش۔‘‘ دیگر افراد نے بھی اس کی تائید کی، تب جیک نے چونک کر کہا: ’’جونی، ہم نے جو دوسری کتاب حاصل کی ہے، وہ ان کو دکھانی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تکیے کے نیچے سے کتاب نکال لی۔
’’ایک اور کتاب؟‘‘ سب سے پہلے اینگس چونکے۔ ’’کیا یہ بھی پہلی والی کتاب کی طرح ہے؟‘‘
جونی نے کہا: ’’اینگس یہ جو کتاب تمھارے سامنے میز پر دھری ہے، یہ میری ہے۔ میں نے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب اس میں درج کر دیا۔ جب کہ یہ دوسری کتاب جادوگر زرومنا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
جونی نے جیک کے ہاتھ سے دوسری کتاب لی اور اینگس کے پاس بیٹھ کر کہا: ’’دیکھو، یہ دونوں کتابیں اوپر سے ایک جیسے لگتی ہیں۔ یہ چمڑے، لکڑی اور سونے سے تیار کی گئی ہیں اور دونوں زرومنا نے بنائی ہیں۔ لیکن اندر سے یہ مختلف ہیں۔ میں نے اپنی کتاب قدیم سیلٹک زبان میں لکھی ہے جب کہ زرومنا نے اپنی کتاب اپنے علاقے زیلیا کی زبان میں لکھی ہے، اور یاد رہے کہ پہلان جادوگر کا تعلق بھی زیلیا سے تھا۔‘‘
ایسے میں خاموش بیٹھی ہوئیں مائری نے اچانک مداخلت کی: ’’زیلیا؟ یہ کہاں ہے؟‘‘
’’یہ جادوگروں کی سلطنت ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمام جادوگر وہیں سے آئے تھے۔‘‘ جونی نے بتایا: ’’جادوگر زرومنا نے زیلیا سے آ کر کنگ رالفن سے درخواست کی تھی کہ اسے ان کا خاص جادوگر مقرر کیا جائے اور رالفن نے یہ درخواست قبول کر لی۔ تم لوگوں نے اس کے قتل کی کہانی تو سن ہی لی ہے، اسی طرح کنگ کیگان کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، بہت با رعب تھا وہ، شان دار شخصیت والا۔ اس کے بال لمبے اور گہرے بھورے تھے۔ دور سے لگتا تھا کہ سیاہ ہیں جو اس کے شانوں پر لہراتے تھے۔ وہ سر پر نوک دار جامنی رنگ کی ٹوپی پہنتا تھا اور اس کا عجیب و غریب ڈیزائنوں سے بھرا چوغہ فرش کو چھو رہا ہوتا تھا۔ اس کی ناک لمبی لیکن آنکھیں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آنکھیں سفید تھیں، اس کی پتلیاں بھی رنگین نہیں تھیں، بس سفید اور چمک دار تھیں۔ اس نے ہمیں زیلیا کے بارے میں بتایا تھا، میرے خیال میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔‘‘