نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
قالین ہوا میں اڑنے لگا تھا کہ دانیال نے چیخ کر کہا اس کے کنارے پر مجھے تین مکڑیاں نظر آ رہی ہیں، انھیں گراؤ۔ جبران نے قالین کے درمیان خود کو ٹھیک سے متوازن کیا اور جوتا اتار کر ایک مکڑی کو دے مارا، وہ نیچے جا گرا۔ دوسری مکڑی کی ٹانگیں قالین کے کنارے پر ٹکی ہوئی نظر آ رہی تھیں، جبران نے اسے نیچے گرا دیا۔ تیسری مکڑی اچانک اوپر آ گئی اور فیونا کی ٹانگ پر چڑھ گئی۔ وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹی تو قالین سے ایک چیخ کے ساتھ لڑھک گئی، لیکن اس نے بدحواسی میں قالین کے کنارے کو سختی سے دبوچ لیا تھا جس کی وجہ سے وہ گرنے سے بچ گئی لیکن اب ہوا میں لٹک رہی تھی۔ مکڑی تو گر گئی تھی لیکن فیونا کی جان کو خطرہ تھا، اس نے گھبرا کر کہا ’’مجھے بچاؤ ۔۔۔ مجھے گرنے مت دو پلیز۔‘‘
دانیال نے اس کے ہاتھ کو تھاما اور اسے اوپر کھینچنے لگا لیکن چند ہی لمحوں میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ وہ فیونا کو اوپر نہیں لا پائے گا۔ تب فیونا نے آنکھیں بند کیں اور پرندوں کو پکارا ۔۔۔ ’’کہاں ہو تم پرندو، میں گرنے والی ہوں، میری مدد کرو!‘‘
جبران نے کسی بڑی چیز کو ہوا میں تیرتے آتے دیکھا۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا، کہ وہ کیا چیز ہے۔ جبران اور دانیال سمجھے شاید کوئی گدھ ہے اس لیے وہ گھبرا گئے تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ کر دے، لیکن فیونا نے تسلی دی کہ وہ مدد کو آ رہا ہے۔ پاس آ کر پرندہ فیونا سے بات کرنے لگا اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا اسے مدد کی ضرورت ہے۔ فیونا نے اسے اپنی سچویشن بتائی۔ وہ ایک بہت بڑا گدھ تھا، فیونا نے دانیال کو ہاتھ ہٹانے کے لیے کہا اور پھر خود ہی قالین کا کنارہ چھوڑ دیا۔ وہ نیچے گرنے لگی تو گدھ نے جھپٹا مار کر اسے پنجوں میں دبوچ لیا۔
گدھ نے ذرا دیر میں فیونا کو قلعے کی چوٹی پر اتار دیا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ گدھ نے اس سے کسی مردے کے بارے میں دریافت کیا تو فیونا نے بتایا کہ مردہ تو نہیں دیکھا لیکن قلعے میں ریت کی مکڑیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گدھ یہ سن کر مکڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ جبران نے قالین کو فیونا کے قریب اترنے کا حکم دیا تو قالین نے تعمیل کی، کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں پھر قالین پر سوار اڑ رہے تھے۔ وہ خود کو کھلے آسمان میں اڑتا دیکھ رہے تھے اور ان کے بال تیز ہوا سے اڑے جا رہے تھے، انھیں بہت لطف آ رہا تھا۔ قالین نے انھیں آدھے گھنٹے تک صحرا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کا موقع فراہم کیا، انھوں نے بدوؤں کے خیموں کے باہر کیمپ فائر کا نظارہ بھی کیا۔ جب وہ قلعے واپس پہنچے تو فیونا کے کہنے پر قالین زمین سے دس فٹ اوپر ٹھہر گیا، ان کا قالین پر اسی طرح سونے کا ارادہ تھا۔ فیونا اور جبران نے جادوئی چراغ کو لے کر دانیال کا مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ تینوں کچھ ہی دیر میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے نیند کی وادی میں کھو گئے۔
طلوعِ فجر کے ساتھ وہ باری باری جاگ گئے۔ انھوں نے نیچے دیکھا تو زمین صاف تھی۔ فیونا نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا یاقوت کی تلاش میں جانا ہے اب۔ جب قالین زمین پر پہنچا تو انھوں نے نیچے چھلانگ لگا دی، فیونا نے قالین کو لپیٹا اور قلعے کی دیوار سے لگا کر رکھ دیا۔
جبران نے پوچھا کہ نگینہ کہاں تلاش کرنا ہے، کس راستے پر جائیں گے؟ فیونا نے خاموشی سے وہاں دیواروں پر ایک نگاہ دوڑائی اور پھر بولی اس طرف۔ وہ پتھر کی ایک اونچی دیوار کی طرف چلنے لگے۔ لیکن اس سے چند فٹ کے فاصلے پر جیسے ہی وہ رکے، دیوار اچانک سامنے سے غائب ہو گئی۔ تینوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’دیوار کہاں چلی گئی؟‘‘ دانیال اور جبران ایک ساتھ بول اٹھے۔