نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جب رینجر نے ٹرینکولائزر ڈارٹ (بے ہوشی کے تیر) کے ذریعے ریچھ کو مار گرایا تو ڈریٹن کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ لیکن وہ بھی یہ سوچ کر باقی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ لاپروا دکھائی دے، اور کسی کی نظروں میں نہ آ جائے۔ قریب آ کر اس نے دیکھا کہ فیونا بالکل ٹھیک ہے تو جھنجھلا کر سوچنے لگا کہ یہ منحوس لڑکی ہر بار کسی نہ کسی طرح بچ ہی جاتی ہے۔
دانیال پر خوف کے مارے بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ وہ بولا: ’’تم ٹھیک ہو نا فیونا؟‘‘ پھر اس نے ریچھ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’ریچھ نے اچانک تم پر حملہ کیوں کر دیا؟‘‘ اسی وقت قریب ہی کھڑی ایک عورت نے تبصرہ کیا: ’’یہ ضرور بہت قریب چلی گئی ہو گی اور ریچھ نے سمجھا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
’’ریچھ کے بچے …‘‘ جبران کے منھ سے نکلا اور اس نے جلدی سے آس پاس دیکھا تو بے ہوش ریچھ کے دو بچے ماں کی طرف دوڑتے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ اس کے بال سہلانے لگے۔ جبران نے پھر کیمرہ سنبھالا اور ان کی تصاویر کھینچنے لگا۔
رینجر نے فیونا کو ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ’’تم ٹھیک ہو نا، یہ ریچھ عموماً کسی کو کچھ نہیں کہتے، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں کیا!‘‘
ایسے میں اچانک فیونا کا خیال ڈریٹن کی طرف چلا گیا تو وہ آس پاس موجود لوگوں میں اسے تلاش کرنے لگی۔ اس کی نظریں ایک لڑکے پر جم گئیں، اس نے اونی ٹوپی سے سر اور گردن کو چھپایا ہوا تھا اور اسے گھور رہا تھا لیکن وہ اس کا چہرہ صاف طور پر نہ دیکھ سکی۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور اپنے کپڑوں سے مٹی اور ٹہنیاں ہٹانے لگی۔ ’’میں بھیگ گئی ہوں، کیا آپ کے پاس کمبل ہوگا؟‘‘ لوگ وہاں سے چھٹنے لگے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہونے لگے۔ رینجر نے کہا کہ اس کے پاس کمبل نہیں ہے اور وہ وائٹ ہارس واپس جا رہے ہیں اگر وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تو ہیٹر کے قریب بیٹھ سکیں گے۔ رینجر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ان تینوں کو بس میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
فیونا نے رینجر کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور وہ تینوں بس میں چڑھ کر سب سے آگے بیٹھ گئے، باقی مسافر ایک ایک کر کے چڑھنے لگے تو فیونا ہر ایک کو بہ غور دیکھنے لگی۔ جب ڈریٹن چڑھا تو اس نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔ فیونا اسے دیکھتی رہی، وہ بس کی پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا اور سیٹ پر اس طرح ٹانگیں پھیلا کر لیٹا کہ دور سے نظر نہیں آ رہا تھا، فیونا نے جبران کو اشارہ کیا: ’’یہ لڑکا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، وہ جو پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔‘‘ جبران اور دانیال دونوں نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو فیونا بڑبڑائی: ’’یہ ڈریٹن ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔‘‘
(جاری ہے)

Comments