نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
(جاری ہے…)
Comments