نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
وہ تینوں ایک پہاڑی پر کھڑے تھے، ذرا ہی دیر پہلے منتر نے انھیں اس پہاڑی پر پہنچایا تھا اور وہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے قصبے کو دیکھ رہے تھے۔ یکایک جبران چلایا: ’’ہٹو فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے برق رفتاری سے اس کا بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ وہ لڑکھڑا کر گھاس پر گری۔ عین اسی لمحے وہاں سے گھوڑوں کا ایک ریوڑ دوڑتا ہوا گزرا، جن کی دُمیں اور ایال ہوا میں لہرا رہی تھیں۔
’’یہ کیا تھے؟‘‘ فیونا نے اٹھ کر اپنی نیلی پینٹ سے گرد جھاڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’چھوٹے قد کے گھوڑے۔ ذرا دیر ہو جاتی تو وہ تمھیں کچل کر گزر چکے ہوتے۔‘‘ جبران نے دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے آنکھوں کے سامنے ہاتھ آگے کیا۔ ’’ذرا دیکھو انھیں، کتنے پاگل پن سے دوڑ رہے ہیں۔‘‘
’’یہ تو طے ہے کہ یہ ٹراپیکل یعنی گرم مقام نہیں ہے۔‘‘ دانیال کہنے لگا، حیرت انگیز طور پر فیونا اب اس کی بات اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔ ’’یہ قصبہ تو ہائیڈرا اور گیل ٹے سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بہت خوب صورت جگہ ہے۔ میں واپس جا کر اس کی تصاویر پینٹ کروں گا۔‘‘ اس نے پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے قصبے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں دور تک نیچے واقع سمندر تک سرخ، سبز اور نیلی چھتوں والے گھروں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا نظر آ رہا تھا۔ ’’دیکھو یہ پانی یونان کے پانی سے بالکل مختلف لگ رہا ہے، یہ بہت سرد محسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’ہم ہیں کہاں پر؟‘ جبران اس فہرست کو یاد کرنے لگا جہاں جہاں انھیں جانا تھا۔ ’’یہ نیپال تو نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہاں آس پاس پہاڑی سلسلے نہیں ہیں، اور یہ منگولیا بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سمندر کے کنارے نہیں، یا ہے؟ کیا منگولیا میں اس طرح کے جنگلی گھوڑے پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے فیونا کی طرف دیکھا۔
فیونا بولی: ’’میرے خیال میں ہم آئس لینڈ میں ہیں اور یہ آئس لینڈ کے گھوڑے تھے۔ کتنے چھوٹے قد کے گھوڑے تھے نا۔ ایسا لگتا تھا کہ بدمست بھینسے دوڑ رہے ہوں۔‘‘ اس نے جیب سے کیمرہ نکالا اور کہا: ’’اس مرتبہ اگر گھوڑے پھر آگئے میں پوری طرح تیار رہوں گی۔‘‘ اس نے کیمرے کا فلیش چیک کیا۔ ’’یہ رنگین چھتیں دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ قصبہ ریکجاوک ہے۔‘‘
’’اگر ہم آئس لینڈ میں ہیں تو پھر قلفی بن کر جم کیوں نہیں گئے؟‘‘دانیال بولا۔ اسے زمین پر کہیں بھی برف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ’’آئس لینڈ میں تو برف ہی برف ہوتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘
جبران چاروں طرف نگاہ دوڑا کر موسم پر تبصرہ کرنے لگا: ’’ہم آئس لینڈ ہی میں ہیں، برف باری جلد شروع ہو سکتی ہے۔ چند ہی دن میں یہاں سرد ہوائیں چلنی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہاں قیمتی پتھر مرجان ڈھونڈنا ہے۔ تمھارے انکل اینگس نے کہا تھا کہ یہ گلابی مائل سرخ رنگ کا اور بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ہم اسے کہاں سے ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘
دانیال نے کہا: ’’ہمیں قصبے جانا چاہیے، سہ پہر کا وقت ہے، ایسا لگتا ہے یہاں اندھیرا جلد اترے گا۔‘‘
دونوں نے تائید کی اور تینوں قصبے کی طرف چل پڑے۔ سبز چمکتی گھاس پر لمبے بالوں والی بھیڑیں گھاس چر رہی تھیں۔ فیونا نے وہاں مختلف اور نمایاں رنگوں کو محسوس کیا اور کہا: ’’یہاں کتنے سارے رنگ ہیں، میں نے سفید سے لے کر گہرے بھورے رنگوں کے شیڈز تک دیکھ لیے ہیں۔ یہ بھیڑیں تو بالکل ہمارے ہائی لینڈز کی بھیڑوں کی طرح ہی نا۔‘‘ اس نے قریب جا کر بھیڑ کو چھونا چاہا لیکن وہ دور بھاگ گئیں۔ کچھ فاصلے پر پودوں کے درمیان مور جتنے سفید پرندے پہاڑی کی طرف اڑے۔ جبران انھیں دیکھ کر بولا: ’’یہ تیتروں کی ایک قسم ہے جسے ٹارمگین کہا جاتا ہے، پتا ہے یہ موسم کے حساب سے رنگ بدل سکتے ہیں، گرمیوں میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور اب یہ سفید ہونے لگے ہیں، جلد ہی یہ مکمل طور پر سفید ہو جائیں گے اور اس طرح خود کو برف میں چھپا سکیں گے۔‘‘
’’واہ تم تو آئس لینڈ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا۔ جبران نے کہا: ’’ہاں، اسکول میں پڑھا ہے اس کے بارے میں، انھیں دیکھ کر اچانک یاد آیا مجھے۔‘‘
فیونارکجاوک قصبے سے متعلق بتانے لگی: ’’یہ دارالحکومت ہے، اور یہ لائبریریوں اور مجسموں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں خوب صورت ایڈر بطخیں اور سرخ چپٹی چونچ والے پفن نامی پرندے بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔‘‘ کچھ دور تک چلنے کے بعد فیونا نے کہا: ’’اب ہمیں سب سے پہلے کسی بینک کو تلاش کرنا ہے، جہاں ہم کرنسی کا تبادلہ کر سکیں، میرے خیال میں آئس لینڈ کی کرنسی کو کرونر کہتے ہیں۔‘‘
’’ان بارہ آدمیوں نے قیمتی پتھر چھپانے کے لیے جزائر ہی کیوں چنا؟‘‘ دانیال بولا: ’’وہ دیکھو، ساحل سے دور جزیرے نظر آ رہے ہیں۔‘‘
جبران نے اس کے جواب میں جو معلومات بتائیں اسے سن کر فیونا بھی حیران رہ گئی، وہ بولا:’’غالباً اس لیے کہ یہ جزیرے اس دور میں الگ تھلگ واقع تھے، ان کے پاس بحری جہاز اور بڑی کشتیاں نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ آسانی سے جزیرہ ہائیڈرا چلے جاتے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے لیے ان جگہوں پر پہنچنا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ آئس لینڈ اسکاٹ لینڈ سے بہت دور ہے۔ وہ شاید مشرقی ساحل کی کسی ماہی گیر کشتی میں یہاں پہنچے ہوں گے۔‘‘
فیونا اسے حیرت اور خوشی سے دیکھنے لگی: ’’تم تو معلوما ت کا خزانہ ہو، تمھیں یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘
’’مجھے پڑھنے کا شوق ہے، میری ممی میرے پڑھنے کے لیے کتابیں خرید کر لاتی ہیں اور میں انھیں شوق سے پڑھتا ہوں۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔
ذرا دیر بعد وہ قصبے کی مرکزی سڑک پر پہنچ گئے۔ یہاں ہوٹل، ریستوران اور دکانوں کو رنگین بنایا گیا تھا۔ سڑک پر تھوڑا آگے جا کر وہ ایک بینک کے پاس رک گئے۔
(جاری ہے)