نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
دانیال بڑبڑایا: ’’شفاف پری!‘‘ فیونا بولی: ’’ہیلو کرسٹل فیری، میرا نام فیونا ہے، یہ دانی اور جبران۔ کیا تم یہاں گلیشیئر کے اندر رہا کرتی ہو؟‘‘
’’میں یہاں سے بہت دور شمال کی طرف دوسری پریوں کے ساتھ رہا کرتی تھی۔‘‘ ان کے کانوں سے شفاف پری کی آواز ٹکرانے لگی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ پری کی آواز میں دکھ ہے۔ ’’ہم سیر کرنے نکلے تھے کہ ایک دن زبردست طوفان آیا۔ تیز ہوا کے تھپیڑوں نے مجھے زمین پر دے مارا اور میں بے ہوش ہو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو خود کو اس گلیشیئر میں قید پایا۔ پتا ہے، میں کتنے عرصے سے یہاں قید ہوں؟ ایک ہزار سال سے!‘‘
’’ایک ہزار سال سے!‘‘ تینوں کے منھ سے حیرت کے مارے بہ یک وقت نکلا۔ دانیال ایک طرف سر جھکا کر دیکھنے لگا تاکہ اس کے ننھے پر واضح طور پر دیکھ سکے۔ ’’کیا دوسری پریوں نے تمھیں تلاش نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھ لیا۔ کرسٹل پری نے جواب دیا کہ ضرور تلاش کیا ہوگا لیکن پھر مایوس ہو گئی ہوں گی۔ اس نے کہا: ’’میں آج تک یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہوں لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا۔ اب تم آ گئے ہو تو راستہ بن گیا ہے۔ یہ جو رنگین قلمیں نظر آ رہی ہیں دراصل یہ میں نے وقت گزاری کے لیے انھیں رنگوں سے سجایا ہے۔ زمین کے اوپر خوش رنگ پھول مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ برف کی یہ قلمیں خوب صورت ہیں نا؟‘‘
اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا، دانیال نے فیونا کی طرف جھک کر سرگوشی کی کہ اگر یہ سچ مچ میں پری نہ نکلی تو کیا ہوگا، اگر یہ تیسرا پھندا ہوا تو؟ فیونا نے جواباً دانت کچکچائے: ’’بے وقوف مت بنو دانی، یہ پری برف کے گالے کی طرح معصوم ہے۔‘‘
’’کیا تم تینوں میرا گھر دیکھنا چاہو گے؟‘‘ وہ غار کے اندر کی طرف اڑتے ہوئے بولی۔ ’کیوں نہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا: ’’تم بہت پیاری ہو، کیا میں تمھاری تصویر بناؤں؟‘‘
’’ہاں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرے پیچھے آؤ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اڑ کر اندر جانے لگی۔ فیونا اور جبران اس کے پیچھے چلنے لگے تو دانیال نے بھی مجبوراً قدم اٹھائے۔ اس نے پھر سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا ہم اس پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ کیا پتا یہ تیسرا پھندا ہو اور ہمیں پھنسانے لے جا رہی ہو۔‘‘دانیال پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ برف میں ہمیشہ کے لیے قید ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن فیونا ناگواری سے کہنے لگی: ’’دیکھو دانی، کیا کرسٹل کسی شیطان کی طرح نظر آتی ہے؟ کیا وہ ایک پھندا دکھائی دیتی ہے؟ اس نے خود ہی کہا ہے کہ وہ تو ایک ہزار سال سے یہاں قید ہے … بے چاری!‘‘
کرسٹل انھیں برف کی قلموں کے آس پاس سے گزار کر لے جا رہی تھی، وہاں انھیں مزید جھلملاتے رنگ دکھائی دیے، جو سرخ، زرد اور نارنجی تھے۔ جبران نے ان کی بھی تصویر لی۔ اچانک انھیں اپنے پیچھے کچھ چٹخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دانیال نے جلدی سے مڑ کر دیکھا اور گھبرا کر بولا: ’’فیونا، مڑ کر دیکھو، برف کی دیوار سخت ہو گئی ہے۔ ہم کرسٹل کے برفیلے غار میں قید ہو چکے ہیں!‘‘
تینوں گھبرا کر اس دیوار کی طرف دوڑ کر گئے اور اسے زور زور سے لاتیں مارنے لگے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دانیال بڑبڑایا: ’’میں شرط لگا سکتا ہوں یہ کرسٹل کی کارستانی ہے۔‘‘
جبران پاگلوں کی طرح چلا کر بولا: ’’مارو… اسے زور سے مارو، تاکہ یہ دیوار ٹوٹ جائے۔ ہمیں باہر نکلنے کے لیے اسے توڑنا ہی ہوگا ورنہ یہ غار ہماری قبر بن جائے گا۔‘‘
فیونا مڑ کر کرسٹل کو آوازیں دینے لگی: ’’کرسٹل فیری، تم کہاں ہو؟‘‘
جبران نے جھنجھلا کر کہا: ’’تم اسے کیا آوازیں دے رہی ہو، وہ تو غائب ہو گئی ہے۔ میں یہاں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ ایک دم روہانسا ہو گیا اور پھر اچھل اچھل کر برف کی دیوار کو لاتیں مارنے لگا۔ دانیال بھی اپنی کوشش کر رہا تھا لیکن برف کی دیوار ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ پتھر کی ہو۔ پھر اس نے ٹھہر کر مایوسی سے کہا: ’’نہیں، یہ نہیں ٹوٹے گی، ہم یہیں مر جائیں گے، میں شروع سے جانتا تھا یہ پری بہت گندی ہے۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھہرو، ہم اس دیوار کو نہیں توڑ سکتے۔ ہمیں کرسٹل سے بات کرنی ہوگی، کہاں گئی وہ، میں جاتی ہوں اس کے پیچھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑی۔ جبران بدستور برف کی دیوار پر ضربیں لگا رہا تھا پھر بولا: ’’دانی، تم اسے اپنے بوٹ سے توڑنے کی کوشش کرتے رہو، یہ برف ہے ضرور ٹوٹ جائے گی۔ میں فیونا کے پاس جاتا ہوں، ہو سکتا ہے اس کو مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘
جبران فیونا کے پاس آیا تو وہ کرسٹل سے کہہ رہی تھی: ‘‘کیا مطلب ہے تمھارا، ہم یہاں سے کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘
(جاری ہے۔۔۔)

Comments